This is featured post 1 title
Replace these every slider sentences with your featured post descriptions.Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha - Premiumbloggertemplates.com.

This is featured post 2 title
Replace these every slider sentences with your featured post descriptions.Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha - Premiumbloggertemplates.com.

This is featured post 3 title
Replace these every slider sentences with your featured post descriptions.Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha - Premiumbloggertemplates.com.

Friday, September 26, 2014


دوست تو دوست ہیں چاہے جیسے بھی ہوں.... بس ان کی
اقسام ذرا رنگ برنگی ہوتیں ہیں -آج ہم اپ کو ان کی چند اقسام سے آشنا کروایں گے
: نمبر ایک
ہومیوپیتھک دوست ، یہ وہ دوست ہیں جنہیں ہم " جگری دوست " بھی کہتے ہیں یہ ہومیوپیتھک ادویات کی طرح نسبتاً کم نقصان دہ ہوتے ہیں - بچپن کے دوست
یہ دوست غذا کی طرح ہوتے ہیں جن کی دوستی ہمارے لئے ناگزیر ہوتی ہے- جو ہر خوشی اور غم میں ساتھ دیتے ہیں -ہم اپنا ہر مسلہ اور پریشانی ان سے بانٹ لیتے ہیں اور غلط اقدام پر اکثر یہ ہمارے کان بھی کھینچتے ہیں-اگر کسی وجہ سے ناراض ہو بھی جائیں تو مشکل وقت میں ڈھیٹوں کی طرح ہمارا ساتھ دے کر ہمیں شرمندہ کرتے ہیں
:نمبر دو
مطلبی دوست ، یہ دوستوں کی وہ قسم ہے جو دوستوں کے مصیبت میں کام آنے والے محاورے کو غلط ثابت کرتے رہتے ہیں - یہ صرف اس وقت اپنی دوستی جتاتے ہیں جب انہیں ہم سے کوئی کام نکلوانا ہو اور جب ہمیں ان کی ضررورت ہو تو یہ بھوتوں کی طرح یا پھر الیکشن کے بعد جیت جانےوالے سیاست دانوں کی طرح غائب ہو جاتے ہیں- یہ بےحس انسان ہوتے ہیں جنھیں صرف اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے اور دوسروں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی - آجکل زیادہ تر یہی قسم دیکھنے کو ملتی ہے
:نمبر تین
مفت کے دوست ، یہ لوگ بیماری کی طرح ہوتے ہیں جن سے اپ دور بھاگتے ہیں - ان کی مثال کمبل کی سی ہے جسے اپ تو چھوڑنا چاہیں پر وہ اپ کو نہیں چھوڑتا "خیر ایسے دوست طالب علمی کے زمانے میں زیادہ ٹکرتے ہیں جب معلوم ہو کہ امتحانات قریب ہیں اور انھیں اپ کی ذہانت کی اشد ضرورت ہو - اس وقت ملتے تو ایسے ہیں جیسے دو سگے بھائی کنبھ کے میلے میں گم ہونے کے عرصے بعد مل رہے ہوں
:نمبر چار
ٹائم پاس دوست ، ان میں اور مطلبی دوستوں میں بس انیس بیس کا فرق ہوتا ہے -دراصل یہ وہ لوگ ہیں جن کا کوئی مشغلہ نہیں ہوتا اور بس اپنا وقت گزارنے کے لئے یہ اپ کا وقت ضایع کرتے ہیں -آجکل سوشل میڈیا پر اسی قسم کی دوستی کا رواج پایا جاتا ہے
:نمبر پانچ
کمینے دوست ، یہ وہ دوست ہیں جو کوئی بھی الٹا کام اکیلے نہیں کرتے اور نہ ہی اپ کو اکیلا کرنے دیتے ہیں ........... یہ کسی حد تک جگری دوستوں کی مانند ہوتے ہیں
فرق اتنا ہے کہ وہ غلطی کرنے پر کان کھینچتے ہیں اور یہ ٹانگ- ایسےکمینے دوست اپنی تمام تر کمینگی کے باوجود بھی دوا کی مانند ہوتے ہیں ،پریشانی اور تنہائی میں جن کی بہت ضرورت محسوس ہوتی ہے
:نمبر چھ
شوخے دوست ، یہ وہ دوست ہیں جو کسی بھی موقعہ پر شوخی بگاڑنے سے باز نہیں اتے - دراصل ان کا مقصد دوسروں کی توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے - کسی بھی محفل یا بھیڑ میں ایسی اوچھی حرکت کریں گے کہ لوگ خودبخود ان کی طرف متوجہ ہوجایں اور اس وقت اپ ان سے دور رہ کر لاتعلقی کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ اپ بھی شوخے نہ کہلاے جائیں
:نمبر سات
شریر دوست ، یہ وہ دوست ہیں جن کی ہڈی کو تب تک چین نہیں اتا جب تک وہ کسی سے کوئی پنگا نہ لے لیں اور اکثر کسی نہ کسی کے ساتھ اپنی اس عادت بد کی وجہ سے یہ جھگڑ کر اپنے ساتھ ساتھ اپ کو بھی شرمندہ کرتے ہیں
:نمبر اٹھ
عاشق دوست.....خود کو غالب اور جون ایلیا سمجھنے والے دل پھینک دوست جو آے دن کسی نہ کسی کی محبت میں گرفتار ہوئے پھرتے ہیں ....اور دل توڑے جانے پر یہ مظلوم عاشقوں کا حلیہ بناے پھرتا ہے - بات بات پر اشعار کی ٹانگ توڑنا ان کی سب سے بڑی نشانی ہے
:نمبر نو
امیر دوست ، دوستوں کی تمام اقسام میں اس دوست کو بڑی اہمیت حاصل ہے ...وجہ نام سے ہی ظاہر ہے - اس دوست کا بڑا رعب ہوتا ہے ، اگر یہ دوست احساس برتری کا شکار دوست ہو تو اس کے لئے دوسروں کی بات ماننا اس کی امارت کے خلاف ہوتا ہے- ان کا یہ مزاج دوسرے دوستوں کو احساس کمتری کا شکار کر دیتا ہے...خود کو طاقتور سمجھنے والے یہ دوست اکثر دوسروں کی نظروں میں احمق ہوتے ہیں
دوستوں کی بیان کردہ اقسام میں، اپ خود کو کس قسم کا
دوست سمجھتے ہیں؟
Monday, September 22, 2014


ہر انسان کی زندگی میں ایک نشہ ضرور موجود ہوتا ہے
جسے پورا کرنے کے لیے وہ جی جان لگاتا ہے، دن رات ایک کردیتا ہےاور ہر حربہ استعمال کرتا ہے
یہ نشہ اپنا مقصد پورا کرنے کا نشہ ہے ، جیسے کچھ لوگوں کو دولت، طاقت، شہرت، آزادی، اپنی ذات منوانے کا نشہ ہوتا
ہے
مقصد جو بھی ہو یہ نشہ وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے ، بس اس نشے کی نوعیت ہر فرد کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے
بعض اوقات اپنے مقصد کے حصول میں دیری یا اس کے پورا نہ ہونے کا احساس انسان کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے اور اس مایوسی اور پریشانی سے بچنے اور بھولانے کے لئےکچھ کم عقل اور بزدل لوگ منشیات کے نشے میں گم ہو جاتے ہیں، ان کا ماننا ہے نشہ ہر غم اور دکھ بھولا دیتا ہے
کیونکہ
منشیات کا استعمال انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو دھندلا کر دیتا ہے اور وقت گزرتے اس نشے میں انسان اتنا گم ہوجاتا ہے کہ اس کی ہر صلاحیت دم توڑ دیتی ہے-نشہ وہ بری عادت ہے جو اخلاق اور جوانی کو تباہ کر دیتی ہے
یہ برائی ہمارے معاشرےکو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے
اس عادت کا آغاز اکثر سگریٹ نوشی اور مختلف چیزوں میں تمباکو کے استعمال یا پھر نشہ کرنے والوں کی صحبت میں بیٹھ کر ہوتا ہے ، جہاں انھیں نشہ کی دعوت دی جاتی ہے
پاؤڈر ، ہیروین، کوکین، آفوین، مریجوآنا، چرس، گانجھا، حشیش یہ تمام غیر قانونی نشہ آور چیزیں سمگلنگ کے ذریعے ملک میں داخل ہو کر ہماری نسلوں کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہیں اور یہ زہر ان کو دھیرے دھیرے موت کے قریب سے قریب تر کر دیتا ہے
بعض لوگ طبی دواؤں کو محض نشے کے لئے استعمال کرتے ہیں جیسے کھانسی کا شربت، نیند، درد اور ڈیپرشن کم کرنے کی گولیاں ، میتھیلیٹڈ سپرٹ، یہاں تک کہ سامان جوڑنے والی گوند کا بھی نشہ کیا جاتا ہے
لوگ اس کینسر کو سماج میں پھیلانے کے نت نئے طریقے کو متعارف کروا رہیں ہیں...............
انڈیا کے شہرحیدرآباد میں ایک اور نشہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہےنئی نسل اپنی زبان کو سانپ سے ڈسواتی ہے اور اس کا نشہ ٣ دن تک رہتا ہے ...ان ٣ دنوں میں وہ گویا الگ ہی دنیا میں سکونت اختیار کر لیتے ہیں
اسی طرح شیشہ جسے تفریح کے نام پہ سماجی قبولیت مل رہی ہے ، نشے کی طرف بڑھایا گیا پہلا قدم ہے
اس کے ایک گھنٹہ کا استعمال سگریٹ پینے کے برابر ہے ١٠٠ اس کا استعمال نہ صرف لڑکوں بلکہ لڑکیوں میں بھی پایا جاتا ہے اور اسے سٹیٹس سیمبل کا نام دے کر نظر انداز کیا جا رہا ہے
سٹیٹس سیمبل کی بات کریں تو اس زہر کو پھیلانے میں ہمارا میڈیا بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے - فیشن انڈسٹری میں موجود فنکاروں کی فٹنس کا راز مختلف منشیات کے مختص استعمال کو بتایا جانا ، فیشن فوبک نوجوان خاص طور پر لڑکیوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے- فلموں اور ڈراموں میں اداکاراوں کے سگریٹ ، شراب اور مختلف نشہ اور چیزوں کا استعمال دکھانا ان کے چاہنے والوں ، جو ان کے ہر انداز کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں پر برا اثر ڈالتے ہیں
پاکستان میں نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والوں کی تعداد جن میں خصوصا نوجوان شامل ہیں تقریبا ٧٠ لاکھ سے زائد ہے
جن میں
١٥- ٦٤ عمر کے افراد شامل ہیں اور سالانہ اضافے کے اعتبار سے صوبہ خیبرپختونخواہ سرفہرست ہے، جہاں ٢٠ فیصد شرح خواتین کی ہے
نشے میں مبتلا یہ شرمناک اور عبرتناک تعداد ہمارے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے
یہ لعنت لوگوں کو ان کی دولت سے محروم کر دیتی ہے اور پھر اخر میں وہ اپنے تمام اثاثے بیچ کر ، ادھار لے کر، چوری اور ہیراپھیری کر کے ، بھیک مانگ کر اپنی اس لت کو پورا کرتے ہیں
زیادہ تر
افراد زندگی کی آخری سانسیں فٹ پاتھوں پر لاوارثوں کی طرح گزار دیتے ہیں
ہمیں چاہیے کہ ہم سب متحد ہو کر اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں -والدین اپنے بچوں پر توجہ دیں، ان کے مسائل سے اگاہ رہیں، وہ کن لوگوں کی صحبت میں بیٹھتے ہیں اس کی خبر رکھیں، ان کہ ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں
حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں منشیات کی فروخت اور سمگلنگ کو ختم کرے ، منشیات کے عادی افراد کے لئے موجود اداروں کی تعداد بڑھاے اور ان میں موجود سہولیات کو بہتر بنایں صرف اس طریقے سے ہم نشے کی اس لعنت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں
تحریر: عالیہ حسن
Friday, September 12, 2014


فرد کی ترقی ہی معاشرے کی ترقی اور فلاح کا باعث ہے اور افراد محض اس وقت تک ترقی حاصل کرتے ہیں جب تک وہ اپنی اخلاقی اقدار کو ترجیح دیتے رہیں
جوں ہی وہ ان سی منہ موڑتے ہیں ، وہ معاشرہ پسماندگی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے اور تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے
کیونکہ
فرد معاشرے کی اکائی ہے اور اگر
اکائی ہی تباہی کے راستے پر تیز گام کی مانند چل پڑے تو معاشرے کو برباد ہونے سے کوئی سیاست دان، ٹیکنالوجی
یا دانشور نہیں روک سکتا
اکیسویں صدی اور جدید دور ..... بظاھر لوگ روزبروز
ترقی کی راہ پر اگے سے اگے چلے جا رہیں ہیں
خاص طور پر مغربی معاشرہ لیکن کیا ضرروری ہے کہ اس درجہ ترقی کے لئے ہم اپنے اقدار کو چھوڑ دیں... کیا واقعی ان کی ترقی کا راز فقط مادر پدر آزادی ہے یا پھر کچھ اور باتیں ہیں جنھیں اپنا کر وہ اس کمال درجہ پر فائز نظر آتے ہیں اور بجاے اپنے اصول و اقدار کو ساتھ لے کر اس راستے کی طرف چلنے کہ ..."ہم" ہر پہلو میں مغربی طرز زندگی اپنانے کو ترجیح دیتے ہیں .....
جیسے لباس ،بودوباش، زندگی کے تمام ہی معاملات حتی کے تہوار بھی بنا سوچے سمجھے وہی منائے جاتے ہیں جن کا ہماری تہذیب و ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا
تاکہ ہم بھی ماڈرن اور ترقی یافتہ کھلا سکیں
اسیمیلایشن کی اس دور میں اگے رہنے کے لئےہم اپنے سماجی اقدار سے بہت دور ہوتے جا رہیں ہیں
اس دوڑ میں سب سے اگے ہماری نوجوان نسل ہے جسےاب گویا حلال و حرام ، اچھائی برائی، حیا بےحیائی، اخلاق اور بداخلاقی میں کوئی فرق ہی محسوس نہیں ہوتا
بلکہ ان سب میں فرق کرنے والوں کو وہ تاریک خیال کہتے ہیں اور اس سب کو ایک ہی ترازو میں تولنے کو وہ روشن خیالی کا نام دیتے ہیں
موجوده صورتحال یہ ہے کہ
شراب، جوا، نشہ ، زنا جنہیں ماضی میں گناہ قبیح جان کر حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ، آج یہ برائیاں ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکیں ہیں اور اونچے طبقے کے لوگوں کی علامت مان کرجدیدیت کی نظر انداز کی جا رہیں ہیں
خواتین پردہ کو اپنی ترقی اور ازادی کی راہ میں رکاوٹ مانتی ہیں- اور خود کی نمائیش کرنے کو ازادی سمجھتی ہیں - ماضی میں پردہ عورت کی حیا کا عنصر جانا جاتا تھا اج اس پردے کو روشن خیالی کے نام پر گرا دیا گیا ہے اور یہ کھ کر خود کوتسلی دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حیا نظر میں ہوتی ہے!!!!!!
اگر ہم اپنی موجوده فیشن انڈسٹری کا جائزہ لیں تو بلا شک و شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہاں ہم اس
ترقی اور ازادی کی راہ میں بہت اگے جا چکے ہییں
انٹرنیٹ پر موجود فحش ویب سائٹس، ڈیٹنگ پوائنٹس ، ڈوکومنٹریز اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال.. ہماری اخلاقی اقدار کی دھجیا اڑا رہیں ہیں
نام نہاد روشن خیالی کی نذر ہوتی ہماری اخلاقیات تیزی سے ہمیں زلالت کی پستی میں دھکیل رہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں ائے روز ریپ جیسے شرمناک واقعات رونما ہوتے ہیں
اس روشن خیالی کی بہت واضح مثال ہمارے معاشرے میں موجود نائٹ کلبزکی بڑھتی ہوی تعداد ہے - جہاں جوانی کو انجواے کرنے کے نام پر نوجوانوں کو بھٹکنے کا پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے
اخلاقی اقدار سے دوری بہت سی برائیوں کو جنم دے رہی ہے ، جن میں سرفہرست ہم جنس پرستی ہے
مغربی معاشرے میں یہ برائی باقاعدہ طور پر قانونی تحفظ حاصل کر چکی ہےاور حال ہی میں پاکستانی
یونیورسٹی کی دو طالبات نے برطانیہ میں شادی کر لی
یہ عمل ہمارے اخلاقی اقدار کا جنازه نکالنے سے کچھ کم نہ تھا!!!!
قیامت کا منظر پیش کرتی یہ صورتحال گم ہوتی سماجی اقدار کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اس کی سب سی بڑی وجہ اسلام سے دوری ہے- ہمیں چاہیے کے ہم اسلامی اصول اور سماجی اقدارکی پیروی کرتے ھوے معاشرے کو تباہی کے راستے
پر جانے سے روک لیں
تحریر: عالیہ حسن
Friday, September 5, 2014


ہر انسان کا چہرہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے - ہم لوگوں کو ان کے چہروں سے پہچانتے ہیں - خوبصورت، پرکشش ، اور حسین چہرے دل کوبھاتے ہیں - لیکن جیسے ہر تصویر کے دو رخ اور ہر کہانی کے دو پہلو ہوتے ہیں ، اسی طرح تقریبا ہر چہرے کے پیچھے بھی ایک چہرہ موجود ہوتا ہے.... حقیقی چہرہ.... جو کہ ظاہر کہ برعکس بہت گھناؤنا بھی ہو سکتا ہے اور بہت زیادہ دلکش اور حسین بھی - دھوکہ ، فریب، خودغرضی، لالچ ، اور حسد اس چہرے کے کچھ پہلو ہیں
ایک معروف قول ہے
ایک معروف قول ہے
"face is the index of mind"
اگر یہ مکمل طور پر سچ ہوتا تو لوگ کبھی بھی دھوکے اور فریب جیسے بدصورت چہروں کا شکار نہیں ہوتے - ان بدصورت چہروں کو دکھاوے اور جھوٹی مسکراہٹ سے آرائش کر کے خوبصورت بنایا جاتا ہے تاکہ انہیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے
آخر اس چہرے کو چھپانے کی کیا وجہ ہے ؟ کیوں اسے ایک
ماسک کے پیچھے رکھا جاتا ہے؟
شاید اس لئے کہ لوگ خود بھی اپنے ان چہروں پر موجود دوسروں کو تکلیف اور نقصان پہنچانے کی پھٹکار کو ناپسند کرتے ہیں - اور چاھتے ہیں کے سب انھیں انکا خیرخواہ اور دوست سمجھیں ... یہ موقعہ پرست لوگ اپنے فائدے کے لئے اچھائی کا ناٹک کرتے ہیں
شکسپیر
شکسپیر
نے کہا تھا ....یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب اداکار جو اپنا اپنا کردار نبھا رہے ہیں - لیکن یہ لوگ تو اداکاری پر بھی حیران کن اداکاری کرتے ہیں
ایسے لوگ کسی کے بھی دوست اور خیرخواہ نہیں ، انہیں دوسروں کو تکلیف دینے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ ان کے دلوں پر برائی کی مہر لگ چکی ہوتی - کسی کی اچھائی کے بدلے اچھائی کرنا ان کے لئے ممکن نہیں
ایسے کچھ چہروں کی مثالیں ہمیں ہماری سیاست میں دیکھنے کو ملیں گی .....جہاں ہر سیاست دان نے معصومیت
خیرخواہی اور نیک دلی کا مکھوٹا پہن رکھا ہے اور عوام کی بہتری اور بھلائی کرنے کی اداکاری کر رہے ہیں اور عوام سب جاننے اور سمجھنے کے باوجود کبوتر کی طرح
آنکھیں موند کر بیٹھیں ہیں
تحریر: عالیہ حسن
Monday, September 1, 2014


حال ہی میں اپنی انٹرنشپ کے سلسلے میں مجھے ایک نجی
یونیورسٹی کے طالب علموں سے بات چیت کا موقعہ ملا - دراصل مجھے وہاں ان کی تعلیمی ضروریات ، مصروفیات ، اور درپیش مسائل کو معلوم کرنے اور ان کی راے جاننے کا کام دیا گیا تھا
جدید دور اور نجی یونیورسٹی کا میل ایسے ہی ہے جیسے زمین اور آسمان کے قلابے ملانا- دیدہ زیب عمارت ، ایرکنڈیشنڈ کلاس رومز ، ریستوران نما کیفے، آڈیٹوریمز ، جدید سہولیات سے آراستہ کمپیوٹر لیب اور لائبریریز اور ہر وہ سہولت جو سرکاری اداروں میں پڑھنے والے مڈل کلاس طالب علم ٹیلی ویژن پر دیکھی جانے والی فلموں اور ڈراموں کی یونیورسٹیز کو دیکھ کر حسرت کرتے ہیں
میں نے مختلف طالب علموں سے
ان کی تعلیم اور اس میں درپش مسائل پر رائے لی ، کسی نے اساتذہ کی کی جانے والی سختی ،کسی نے سسٹم تو کسی نے تعلیمی پالیسیز پر رائے کا اظہار کیا - مگر ایک طالب علم سے رائے لیتے ہوے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں کسی طالب علم نہیں بلکہ ایک عاشق کا انٹرویو لی رہی ہوں
جناب کا حلیہ بڑا لاجواب تھا ...جیسے کوئی مجنون اپنی محبوبہ کی جدائی کے غم میں ہو - دبلا پتلا ، بڑھی ہویی داڑھی ، بکھرے بال جنیہں وہ سپائکس کا نام دے رہا تھا ، جینز جو گھٹنوں سے لے کر اخر تک پھٹی ہوی تھی ، کلائی میں چوریوں نما بینڈز اور ہاتھ میں ایک کتاب جس پر اپنا ٹچ سکرین موبائل رکھ کر وہ کسی کو لگاتار میسج کر رہا تھا
وہ دیکھنے میں خاصہ پریشان اور کسی مشکل میں محسوس ہوا - میرے اصرار کرنے پر اس نے بتایا کہ اس کی گرل فرینڈ اس سے خفا ہو گئی ہے - وجہ پوچھنے پر
موصوف نے بتایا کہ" امتحانات میں مصروفیت کی وجہ سے میں اسے زیادہ وقت نہیں دے پایا ، نہ ہی اس کے فیس بک سٹیٹس کو لائک کیا ، نہ ہی کسی ہوٹل میں کھانا کھلانے لے گیا- بس دن میں ، پانچ چھ بار موبائل پر بات ہوتی تھی- وہ بہت ناراض ہے مجھ سے بات نہیں کر رہی
جبکہ اس ساری رام لیلا کو بیان کرتے ھوے اس کا سیل لگاتار وایبرٹ کر رہا تھا - میرا پوچھنا توگویا اس کے لئے ایسے تھا جیسے کسی نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو
اس نے مجھے اپنا ہمدرد سمجھ کر اپنے عشق کی ساری داستان سنانا شروع کر دی.... اور جب میں نے اس سے اس کی تعلیمی زندگی کہ متعلق سوال کیا کہ اپ کو یہاں کے سسٹم یا تعلیمی پالیسیز سے کوئی شکایت ہو یا پھر آپ کوئی رائے دینا چاہیں تو اس نے کہا ....." سسٹم بہت سخت ہے لیکچر کے دوران موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے" جس سے ہماری نجی زندگی بہت ڈسٹرب ہوتی ہے
مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس کا اشارہ پہلے بیان شدہ مسلےکی طرف تھا- یہ کہہ کر وہ دوبارہ اپنے موبائل میں مصروف ہو گیا
میں نے انٹرویو ختم کیا اور جدید دور کے اس عاشق کی پریشانی پر حیران رہ گئی جسے اپنی تعلیم اور مستقبل سے زیادہ اپنی محبوبہ جسے جدید دور میں گرل فرینڈ کہتے ہیں، کی فکرکھاے جارہی تھی
عالیہ حسن
Subscribe to:
Posts (Atom)