فرد کی ترقی ہی معاشرے کی ترقی اور فلاح کا باعث ہے اور افراد محض اس وقت تک ترقی حاصل کرتے ہیں جب تک وہ اپنی اخلاقی اقدار کو ترجیح دیتے رہیں
جوں ہی وہ ان سی منہ موڑتے ہیں ، وہ معاشرہ پسماندگی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے اور تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے
کیونکہ
فرد معاشرے کی اکائی ہے اور اگر
اکائی ہی تباہی کے راستے پر تیز گام کی مانند چل پڑے تو معاشرے کو برباد ہونے سے کوئی سیاست دان، ٹیکنالوجی
یا دانشور نہیں روک سکتا
اکیسویں صدی اور جدید دور ..... بظاھر لوگ روزبروز
ترقی کی راہ پر اگے سے اگے چلے جا رہیں ہیں
خاص طور پر مغربی معاشرہ لیکن کیا ضرروری ہے کہ اس درجہ ترقی کے لئے ہم اپنے اقدار کو چھوڑ دیں... کیا واقعی ان کی ترقی کا راز فقط مادر پدر آزادی ہے یا پھر کچھ اور باتیں ہیں جنھیں اپنا کر وہ اس کمال درجہ پر فائز نظر آتے ہیں اور بجاے اپنے اصول و اقدار کو ساتھ لے کر اس راستے کی طرف چلنے کہ ..."ہم" ہر پہلو میں مغربی طرز زندگی اپنانے کو ترجیح دیتے ہیں .....
جیسے لباس ،بودوباش، زندگی کے تمام ہی معاملات حتی کے تہوار بھی بنا سوچے سمجھے وہی منائے جاتے ہیں جن کا ہماری تہذیب و ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا
تاکہ ہم بھی ماڈرن اور ترقی یافتہ کھلا سکیں
اسیمیلایشن کی اس دور میں اگے رہنے کے لئےہم اپنے سماجی اقدار سے بہت دور ہوتے جا رہیں ہیں
اس دوڑ میں سب سے اگے ہماری نوجوان نسل ہے جسےاب گویا حلال و حرام ، اچھائی برائی، حیا بےحیائی، اخلاق اور بداخلاقی میں کوئی فرق ہی محسوس نہیں ہوتا
بلکہ ان سب میں فرق کرنے والوں کو وہ تاریک خیال کہتے ہیں اور اس سب کو ایک ہی ترازو میں تولنے کو وہ روشن خیالی کا نام دیتے ہیں
موجوده صورتحال یہ ہے کہ
شراب، جوا، نشہ ، زنا جنہیں ماضی میں گناہ قبیح جان کر حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ، آج یہ برائیاں ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکیں ہیں اور اونچے طبقے کے لوگوں کی علامت مان کرجدیدیت کی نظر انداز کی جا رہیں ہیں
خواتین پردہ کو اپنی ترقی اور ازادی کی راہ میں رکاوٹ مانتی ہیں- اور خود کی نمائیش کرنے کو ازادی سمجھتی ہیں - ماضی میں پردہ عورت کی حیا کا عنصر جانا جاتا تھا اج اس پردے کو روشن خیالی کے نام پر گرا دیا گیا ہے اور یہ کھ کر خود کوتسلی دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حیا نظر میں ہوتی ہے!!!!!!
اگر ہم اپنی موجوده فیشن انڈسٹری کا جائزہ لیں تو بلا شک و شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہاں ہم اس
ترقی اور ازادی کی راہ میں بہت اگے جا چکے ہییں
انٹرنیٹ پر موجود فحش ویب سائٹس، ڈیٹنگ پوائنٹس ، ڈوکومنٹریز اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال.. ہماری اخلاقی اقدار کی دھجیا اڑا رہیں ہیں
نام نہاد روشن خیالی کی نذر ہوتی ہماری اخلاقیات تیزی سے ہمیں زلالت کی پستی میں دھکیل رہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں ائے روز ریپ جیسے شرمناک واقعات رونما ہوتے ہیں
اس روشن خیالی کی بہت واضح مثال ہمارے معاشرے میں موجود نائٹ کلبزکی بڑھتی ہوی تعداد ہے - جہاں جوانی کو انجواے کرنے کے نام پر نوجوانوں کو بھٹکنے کا پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے
اخلاقی اقدار سے دوری بہت سی برائیوں کو جنم دے رہی ہے ، جن میں سرفہرست ہم جنس پرستی ہے
مغربی معاشرے میں یہ برائی باقاعدہ طور پر قانونی تحفظ حاصل کر چکی ہےاور حال ہی میں پاکستانی
یونیورسٹی کی دو طالبات نے برطانیہ میں شادی کر لی
یہ عمل ہمارے اخلاقی اقدار کا جنازه نکالنے سے کچھ کم نہ تھا!!!!
قیامت کا منظر پیش کرتی یہ صورتحال گم ہوتی سماجی اقدار کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اس کی سب سی بڑی وجہ اسلام سے دوری ہے- ہمیں چاہیے کے ہم اسلامی اصول اور سماجی اقدارکی پیروی کرتے ھوے معاشرے کو تباہی کے راستے
پر جانے سے روک لیں
تحریر: عالیہ حسن
0 comments:
Post a Comment
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔