ہر انسان کی زندگی میں ایک نشہ ضرور موجود ہوتا ہے
جسے پورا کرنے کے لیے وہ جی جان لگاتا ہے، دن رات ایک کردیتا ہےاور ہر حربہ استعمال کرتا ہے
یہ نشہ اپنا مقصد پورا کرنے کا نشہ ہے ، جیسے کچھ لوگوں کو دولت، طاقت، شہرت، آزادی، اپنی ذات منوانے کا نشہ ہوتا
ہے
مقصد جو بھی ہو یہ نشہ وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے ، بس اس نشے کی نوعیت ہر فرد کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے
بعض اوقات اپنے مقصد کے حصول میں دیری یا اس کے پورا نہ ہونے کا احساس انسان کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے اور اس مایوسی اور پریشانی سے بچنے اور بھولانے کے لئےکچھ کم عقل اور بزدل لوگ منشیات کے نشے میں گم ہو جاتے ہیں، ان کا ماننا ہے نشہ ہر غم اور دکھ بھولا دیتا ہے
کیونکہ
منشیات کا استعمال انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو دھندلا کر دیتا ہے اور وقت گزرتے اس نشے میں انسان اتنا گم ہوجاتا ہے کہ اس کی ہر صلاحیت دم توڑ دیتی ہے-نشہ وہ بری عادت ہے جو اخلاق اور جوانی کو تباہ کر دیتی ہے
یہ برائی ہمارے معاشرےکو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے
اس عادت کا آغاز اکثر سگریٹ نوشی اور مختلف چیزوں میں تمباکو کے استعمال یا پھر نشہ کرنے والوں کی صحبت میں بیٹھ کر ہوتا ہے ، جہاں انھیں نشہ کی دعوت دی جاتی ہے
پاؤڈر ، ہیروین، کوکین، آفوین، مریجوآنا، چرس، گانجھا، حشیش یہ تمام غیر قانونی نشہ آور چیزیں سمگلنگ کے ذریعے ملک میں داخل ہو کر ہماری نسلوں کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہیں اور یہ زہر ان کو دھیرے دھیرے موت کے قریب سے قریب تر کر دیتا ہے
بعض لوگ طبی دواؤں کو محض نشے کے لئے استعمال کرتے ہیں جیسے کھانسی کا شربت، نیند، درد اور ڈیپرشن کم کرنے کی گولیاں ، میتھیلیٹڈ سپرٹ، یہاں تک کہ سامان جوڑنے والی گوند کا بھی نشہ کیا جاتا ہے
لوگ اس کینسر کو سماج میں پھیلانے کے نت نئے طریقے کو متعارف کروا رہیں ہیں...............
انڈیا کے شہرحیدرآباد میں ایک اور نشہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہےنئی نسل اپنی زبان کو سانپ سے ڈسواتی ہے اور اس کا نشہ ٣ دن تک رہتا ہے ...ان ٣ دنوں میں وہ گویا الگ ہی دنیا میں سکونت اختیار کر لیتے ہیں
اسی طرح شیشہ جسے تفریح کے نام پہ سماجی قبولیت مل رہی ہے ، نشے کی طرف بڑھایا گیا پہلا قدم ہے
اس کے ایک گھنٹہ کا استعمال سگریٹ پینے کے برابر ہے ١٠٠ اس کا استعمال نہ صرف لڑکوں بلکہ لڑکیوں میں بھی پایا جاتا ہے اور اسے سٹیٹس سیمبل کا نام دے کر نظر انداز کیا جا رہا ہے
سٹیٹس سیمبل کی بات کریں تو اس زہر کو پھیلانے میں ہمارا میڈیا بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے - فیشن انڈسٹری میں موجود فنکاروں کی فٹنس کا راز مختلف منشیات کے مختص استعمال کو بتایا جانا ، فیشن فوبک نوجوان خاص طور پر لڑکیوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے- فلموں اور ڈراموں میں اداکاراوں کے سگریٹ ، شراب اور مختلف نشہ اور چیزوں کا استعمال دکھانا ان کے چاہنے والوں ، جو ان کے ہر انداز کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں پر برا اثر ڈالتے ہیں
پاکستان میں نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والوں کی تعداد جن میں خصوصا نوجوان شامل ہیں تقریبا ٧٠ لاکھ سے زائد ہے
جن میں
١٥- ٦٤ عمر کے افراد شامل ہیں اور سالانہ اضافے کے اعتبار سے صوبہ خیبرپختونخواہ سرفہرست ہے، جہاں ٢٠ فیصد شرح خواتین کی ہے
نشے میں مبتلا یہ شرمناک اور عبرتناک تعداد ہمارے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے
یہ لعنت لوگوں کو ان کی دولت سے محروم کر دیتی ہے اور پھر اخر میں وہ اپنے تمام اثاثے بیچ کر ، ادھار لے کر، چوری اور ہیراپھیری کر کے ، بھیک مانگ کر اپنی اس لت کو پورا کرتے ہیں
زیادہ تر
افراد زندگی کی آخری سانسیں فٹ پاتھوں پر لاوارثوں کی طرح گزار دیتے ہیں
ہمیں چاہیے کہ ہم سب متحد ہو کر اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں -والدین اپنے بچوں پر توجہ دیں، ان کے مسائل سے اگاہ رہیں، وہ کن لوگوں کی صحبت میں بیٹھتے ہیں اس کی خبر رکھیں، ان کہ ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں
حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں منشیات کی فروخت اور سمگلنگ کو ختم کرے ، منشیات کے عادی افراد کے لئے موجود اداروں کی تعداد بڑھاے اور ان میں موجود سہولیات کو بہتر بنایں صرف اس طریقے سے ہم نشے کی اس لعنت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں
تحریر: عالیہ حسن
0 comments:
Post a Comment
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔