Thursday, January 8, 2015










ہمارے معاشرے میں عورت کی تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دی  جاتی اور اس کو چادر اور چار دیواری کی گانٹھ میں باندھ دیا جاتا ہے- گھر کے کام کاج، بچوں کی دیکھ بھال اور گھر والوں کی خدمات سر انجام دینا ہی فقط اس کا کام سمجھا جاتا ہے – اس کی زندگی کا محور صرف اس دائرے تک محدود کر دیا گیا ہے- اگر کوئی اپنے حق اور آزادی کی خاطر آواز بلند کرنے کی جرات کرے تو کئی ہاتھ اسے چپ کروانے کے لئے اٹھتے ہیں اور ان ہاتھوں کو روکنے والا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا

برائی چادر اور چار دیواری میں نہیں بلکہ اس سوچ میں ہے جو عورت کی تعلیم اور آزادی کو برائی سمجھتی ہے !

مرد کی تعلیم صرف ایک فرد کی حد تک ہے – وہ پڑھ لکھ کر محض اپنی زندگی سنوارے گا- اس کی سوچ میں تبدیلی اس کی زندگی کو بہتر کرے گی اور وہ کامیابی کے راستے 
سے اگاہ ہوگا.....

 لیکن عورت، جیسے نپولین بونا پاٹ نے کہا :

تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تمہیں پڑھی لکھی اور تہذیب یافتہ قوم دوں گا-

یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس سوچ کو بدلیں جو عورت کی تعلیم کے راستے میں رکاوٹ ہے کیونکہ غلام اور جاہل مائیں، غلام اور جاہل نسلوں کو جنم دیتی ہیں اور یہ نسلیں قوم کی تباہی کا باعث بنتیں ہیں –

آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بیٹیوں کی تعلیم پر انویسٹمنٹ اس لئے نہیں کرتے کہ انھیں مستقبل میں اسکا کوئی پرافٹ نہیں ملے گا – اور اگر کوئی لڑکی تعلیم حاصل کرنے کی خواھش ظاہر کرتی ہے تو اسے یہ کہہ  کر خاموش کروا دیا جاتا ہے " کیا کرنا ہے پڑھ لکھ کر ؟ گھر گرہستی سیکھو جو آگے جا کر کام آنی ہے ، ہم نے کون سی نوکریاں کروانی ہیں"

یہ روایتی جملہ ایسی سوچ کو ظاہر کرتا ہے جو تعلیم نسواں کو اپنے نفع اور نقصان کے ترازو میں تولتی ہے- جو عورت کی تعلیم کو محض وقت اور پیسے کا ضیائع سمجھتی ہے- جس کے لئے عورت کی بہترین جگہ باورچی خانہ ہے – جو علم کے حقیقی معنی اور اہمیت سے نا واقف ہے- اسی سوچ کی بنیاد پر ہزار ہا لڑکیاں اپنے اس حق سے محروم کر دیں جاتیں ہیں-

شرعی پردے کی آڑ میں انہیں تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے –

حدیث نبوی ہے:

علم حاصل کرو ، چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے " ہمارے ہاں چین تو کیا اپنے ہی شہر کے اسکول و کالج نہیں بیھجا جاتا 

ایک اور حدیث ہے :
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے "

جبکہ قرآن پاک میں سب سے پہلی آیت ہی علم کے لئے تھی- اس سے علم کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے – شرک دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ تھا لیکن الله تعالی نے سب سے پہلے توحید کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ علم کو عام کیا- علم کے بعد پھر توحید کے بارے میں کہا چونکہ الله کی توحید کو سمجھنے کے لئے علم فہم راستہ ہے- قرآن پاک میں تین سو پچاس آیات علم کے حوالے سے ہیں- سات سو پچاس آیات انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں، شعور کی بات کرتی ہیں –

الله تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں :
"کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں"۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے :
جو علم کے راستے پر چلتا ہے الله اس کا راستہ آسان کرتا ہے-

ان تمام آیات میں کہیں بھی جنسی تفریق کا ذکر نہیں ہے ، الله تعالی نے مرد اور عورت دونوں کو علم حاصل کرنے کی تلقین کی ہے .........یہ تفریق انسان کی تخلیق کردہ ہے-

جاگیردانہ سوچ رکھنے والے لوگ عورت کو حقیر جان کر اس کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں، ان کے خیال سے عورت کو تعلیم حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے –
وہ اس حقیقت  سے لاعلم  ہیں کہ علم تو وہ ضرورت ہے جسکا پورا ہونا ہر انسان کا حق ہے اب یہ اس فرد پر منحصر کرتا ہے کہ آیا وہ اندھیروں کو اپنا مقدار بنانا چاہتا ہے یا اس حق کا حصول – البتہ کسی دوسرے فرد کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو بھی اس کے اس حق سے محروم کرے اور اس ضرورت کے پورا ہونے سے ملنے والی آزادی اس سے چھین لے –

علم سے ملنے والی آزادی سے مراد وہ مغربیت زدہ آزادی ہرگز نہیں جو معاشرے کے جاہل اور تنگ نظر لوگوں نے پڑھی لکھی خواتین سے وابستہ آزادی کو تصور کر رکھا ہے – ان کا سوچنا ہے کہ  پڑھی لکھی خواتین خودمختار ہو جاتی ہیں ، جو چاہے وہ کرتی ہیں – ان کا جو جی چاہے وہ کرنا ان کے نزدیک اس لئےغلط ہے کیونکہ وہ عورت ہے اور یہ حق صرف مرد کو حاصل  ہے-

پڑھی لکھی خواتین  گھر بسانے کے قابل نہیں رہتیں اس لئے کہ وہ اپنے حقوق سے اگاہ ہو کر ان کا مطالبہ کرتیں ہیں اور حق تلفی کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کرتیں ہیں – اور ہمارے معاشرے میں سمجھدار عورت تو وہی ہے جو اپنے ساتھ ہونے والے  ہر ظلم اور زیادتی کو خاموشی سے برداشت کرے ، چپ رہے –

پڑھی لکھی خواتین حیا کی پاسدار نہیں رہتیں اور ازدواجی زندگی میں وہ اپنی زمہ داریوں سے خود کو آزاد اور بالاترتصور کرتیں ہیں –

مختصر یہ کہ ان کے مطابق تعلیم خواتین کے لئے مضر اخلاق و کردار ہے- انھیں تعلیم سے دور رکھ کر ہی وہ شرعی پردے کی پاسداری کروا سکتے ہیں – ان کے کردار کی پختگی  اور اخلاق کی بہتری اسی میں ہے-

اسی سوچ کی وجہ سے ہمارے معاشرے کے کئی لوگ معاشی وسائل ہونے کے باوجود اپنی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے حق میں ہیں – یہ لوگ آج بھی سو سال پرانی فرسودہ روایات میں الجھے ہوئے ہیں جب معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں تھی جبکہ معیشت ہو ، فوج ہو، انجینئرنگ ہو یا کوئی بھی حکومتی ادارہ ،  خواتین ہر سطح پر ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور ہم اپنے ملک میں خواتین کے کردار کی نفی نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے لئے تعلیم کی اہمیت کو،  کیوںکہ عورت اپنے اعتبار سے تو ایک فرد ہے لیکن وہ پوری سوسائٹی کے کردار کو تشکیل دیتی  ہے- کیونکہ سوسائٹی کا ہر فرد اس کی گود سے پرورش پا کر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بھی عورت کی دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کرنے پر تلقین کی ہے –

ہمیں لڑکیوں کی تعلیم کیلئے والدین کو قائل کرنے، ان کو تعلیم کے معنی اور فوائد سے اگاہ کرنے کی ضرورت ہے .

 " سوچ بدلنے کی ضرورت ہے "
     
 تحریر :عالیہ حسن 


0 comments:

Post a Comment

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔