Saturday, December 6, 2014








موجوده حالات و واقعات دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے 
کہ اب ہم کسی صورت بہتری حاصل نہیں کر سکتے – حالات بد سے بدتر ہوتے نظر آ رہے ہیں – انسان میں دنیاوی لگاؤ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب وہ اپنی خواھشات اور مقاصد کے حصول میں اخلاقیات کی کسی حد کو پار کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتا – یہاں بھینس کی ملکیت کو نظر انداز کر کے ملکیت لاٹھی پر زور دیا جاتا ہے-  امیر امیرتر  اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے – مہنگائی کا جن غریب کے گھر میں اس طرح بسیرا کر چکا ہے کہ اب کوئی سیاسی بابا اپنے بےاثر نعروں کے تعویز سے اسے نکال نہیں سکتا-   انسان کچھ یوں  بے حس ہو چکا ہے کے اسے  کسی کی تکلیف، خوشی و رنج سے کوئی سروکار نہیں بس اپنا مقصد 
-پورا ہونا چایئے 

 موجوده صورتحال یہ ہے کہ تعریف کرپشن میں ردوبدل کر کے لوگوں نے اسے ہر اس پیمانے پر اختیار کر لیا  ہے جس میں وہ اپنا سامان تولتے ہیں –انکے لئے کرپشن وہی ہے جو کوئی دوسرا کرتا ہے اور ان کی کی گئی دھاندلی و زیادتی انکا حق ہے – اب اگر اپنے حق کے حصول سے  کسی اور کا نقصان ہوتا ہے تو ان کی بلا سے – تحائف کا ٹیگ لگا کر رشوت دینا اور لینا معمول بن چکا ہے – ایسا کوئی شعبہ نہیں جہاں رشوت و سفارش  نہ چلتی ہو – چپڑاسی سے لے کر اعلی -افسران تک تمام ان تحائف میں چھپے خلوص کے زیراثر ہیں-

سیاست ہو یا لاء اینڈ آڈر ، صحت ہو یا تعلیم ایسا کوئی محکمہ نہیں جہاں کوئی کسی کے ساتھ ظلم  نہ کرتا ہو، اس کا حق نہ چھینتا ہو – لوگوں نے پیسہ، پاور، اقتدار و شہرت ہی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے – اور کامیاب و خوشحال زندگی کے تمام قوائد بھلا کر وہ خود کو کامیاب بنانے اور ایک خوشحال زندگی جینے کی امید میں مصروف ہیں –

نوکری کے لئے انٹرویو میں پاس ہونا ہو یا اعلی عہدے   ٹرانسفر کروانا ہو ، کالج و یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہو یا امتحان میں پاس ہونا ہو، قطار میں کھڑے ہو کر انتظار سے بچنا ہو یا ٹریفک قوانین توڑنے کے جرمانے سے ، رشوت سہل راستہ ہے –

آج محکمہ صحت میں لوگوں کی جان بچانے کی بجائے پیسہ وصول کرنا مقصد بن چکا ہے ، جس کے تحت حکومت کی طرف سے غریبوں کو دی گئی مفت ادوایات بھی فروخت کی جا رہیں ہیں، یہاں تک کہ لوگوں کی جانب سے عطیہ کی جانے والی مشینری بھی آگے بیچ دے جاتی ہے - اعلی عہدوں پر فائز نااہل ڈاکٹرز کی بڑھتی  تعداد اور جعلی ادوایات کی بڑھتی فروخت مریضوں کے لئے خطرہ بن چکی ہے اور اس غفلت کے باعث آئے روز ہمیں کئی ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے – اہل وعیال کے احتجاج کرنے پر افسران نوٹس تو لیتے ہیں لیکن ریت کے مطابق زمہ داران کے خلاف موجود فائلز پیسوں کے وزن تلے دب جاتیں ہیں- 

تعلیمی صورتحال یہ ہے کے حکومت کی جانب سے طلباء طالبات کو دی جانے والی مفت درسی کتب ردی کے بھاؤ بیچ دی جاتیں ہیں – میریٹ پر پورا نہ ہونے کے باوجود رشوت لے کر داخلہ دیا جاتا ہے اور اہل طلباء و طالبات کا حق چھین لیا جاتا ہے – امتحانات میں رشوت کے ذریعے نمبر بڑھوا ئے جاتے ہیں یہاں تک کہ امتحان ہی امیدوار کا کوئی عزیز دیتا ہے اور اگر شازو ناظر کوئی پکڑا ہی جائے تو معاملہ افسران تک پہنچنے سے پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے – سرکاری تعلیمی اداروں کے  نصاب میں سال ہا سال کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی جس سے نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کا فرق بڑھتا چلا جا رہا ہے یہاں تک کہ حکومت کی جانب سے ذہین طلبہ کو دی جانے والی اسکالر شپ تک ہڑپ لی جاتی ہے -  

لاء اینڈ آرڈر کے محکمہ میں بدعنوانی عروج پر ہے – یہاں قانون محض کمزور کے لئے بنتا اور لاگو ہوتا ہے – طاقت ور اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے – اگر کمزور کوئی قانون توڑے تو اس پر جرمانہ اور سزا عائد کیا جاتا ہے اور اگر امیر ایسا کچھ کرے تو سفارش اور طاقت کے بل پر اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا – قوانین موجود ہیں لیکن بدعنوانی اور گورننس کے نقائص کے باعث ان پر عمل نہیں کیا جاتا ہے –دھاندلی، رشوت، قتل و ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث افراد بڑی شان سے کھلے عام گھومتے ہیں جن پر کیس تو درج ہوتا ہے لیکن انکوائری کے لئے ان کی فائلز نوٹوں کے ملبے تلے دبا دی جاتیں ہیں جو تاحال وہاں سے نکل نہیں سکتیں –

غرض ہر محکمہ اقربا  پروری، بدعنوانی ، ڈسپلن کے فقدان اور غفلت کا شکار ہے – یہ تمام محکمے ہی ملک کی بنیاد مظبوط بناتے ہیں اگر محکموں کو بدعنوانی اور غفلت سے چھلنی کر دیا جائے تو ملک کی ترقی و  خوشحالی کا سوچنا فقد ہوائی قلعے تعمیر کرنے کی مانند ہو گا- اس تمام صورت حال سے اور بہت سے مسائل جانم لے رہے ہیں جن میں سرفہرست مہنگائی، بیروزگاری اور تعلیم کا فقدان ہے –

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تمام صورت حال کو بیرونی ہاتھ کا شاخسانہ قرار دے کر خود کو بےبس اور معصوم ظاہر کرتے ہیں جو کہ کچھ نہ کرنے کی طبیعت کو ظاہر کرتا ہے – ہم کچھ کر نہیں سکتے یا کرنا نہیں چاہتے؟ ہم چاہیں تو ان تمام محکمات میں موجود نقائص کو ڈسپلن رائج کر کے ، اقربا پروری سے گریز کر کے ، بدعنوانی جڑ سے ختم کر کے ، قوانین کو سب پر برابر کا لاگو کر کے ، ٹیکس کی ادائیگی سے، غیر جانبداریت اپنا کر اور ہر کام ایمانداری سے کر کے ختم کر سکتے ہیں – جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں اور جو کرنا چاہتے ہیں ان کو کرنے نہیں دیا جاتا – ہمیں خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے.....جو ہمارے بس میں ہے -
تبدیلی اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے !


تحریر : عالیہ حسن  

 

0 comments:

Post a Comment

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔