Monday, September 1, 2014









حال ہی میں اپنی انٹرنشپ کے سلسلے میں مجھے ایک نجی   
 یونیورسٹی کے طالب علموں سے بات چیت کا موقعہ ملا - دراصل مجھے وہاں ان کی تعلیمی ضروریات ، مصروفیات ، اور درپیش مسائل کو معلوم کرنے اور ان کی راے جاننے کا کام دیا گیا تھا 

جدید دور اور نجی یونیورسٹی کا میل ایسے ہی  ہے جیسے زمین اور آسمان کے قلابے ملانا- دیدہ زیب عمارت ، ایرکنڈیشنڈ کلاس رومز ، ریستوران نما کیفے، آڈیٹوریمز ، جدید سہولیات سے آراستہ کمپیوٹر لیب اور لائبریریز اور ہر وہ  سہولت جو سرکاری اداروں میں پڑھنے والے مڈل کلاس طالب علم ٹیلی ویژن پر دیکھی جانے والی فلموں اور ڈراموں کی یونیورسٹیز  کو دیکھ کر حسرت کرتے ہیں

 میں نے  مختلف طالب علموں سے
 ان کی تعلیم اور  اس میں درپش مسائل پر رائے لی ، کسی نے  اساتذہ کی کی جانے والی سختی ،کسی نے سسٹم تو کسی نے تعلیمی پالیسیز پر رائے کا اظہار کیا - مگر ایک طالب علم سے  رائے لیتے ہوے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں کسی طالب علم نہیں بلکہ ایک عاشق کا انٹرویو لی رہی ہوں
           
جناب کا حلیہ بڑا لاجواب تھا  ...جیسے کوئی مجنون اپنی محبوبہ کی جدائی کے غم میں ہو - دبلا پتلا ، بڑھی ہویی داڑھی ، بکھرے بال  جنیہں وہ سپائکس کا نام دے رہا  تھا ، جینز جو گھٹنوں سے لے کر اخر تک پھٹی ہوی تھی ، کلائی میں چوریوں نما بینڈز اور ہاتھ میں ایک کتاب جس پر اپنا ٹچ سکرین موبائل رکھ کر وہ   کسی کو لگاتار میسج کر رہا تھا 


وہ دیکھنے میں خاصہ  پریشان اور کسی مشکل میں محسوس ہوا - میرے اصرار کرنے پر اس نے بتایا کہ اس کی گرل فرینڈ اس سے خفا ہو گئی ہے - وجہ پوچھنے پر   
موصوف نے بتایا کہ" امتحانات میں مصروفیت کی وجہ سے میں اسے زیادہ   وقت نہیں  دے پایا ، نہ ہی اس کے فیس بک سٹیٹس  کو لائک کیا ، نہ ہی کسی ہوٹل میں کھانا کھلانے  لے گیا- بس دن میں ، پانچ  چھ بار موبائل پر بات ہوتی  تھی- وہ  بہت ناراض ہے مجھ سے بات نہیں کر رہی

جبکہ اس ساری رام لیلا کو بیان کرتے ھوے اس کا سیل لگاتار وایبرٹ کر رہا تھا - میرا پوچھنا توگویا  اس کے لئے ایسے تھا جیسے کسی نے  اس کی دکھتی رگ پر  ہاتھ رکھ دیا ہو


اس نے  مجھے اپنا ہمدرد سمجھ کر اپنے عشق  کی ساری داستان  سنانا شروع کر دی....  اور جب میں نے  اس سے اس کی تعلیمی زندگی کہ  متعلق سوال کیا کہ اپ کو یہاں کے سسٹم یا تعلیمی پالیسیز سے کوئی شکایت ہو یا  پھر آپ  کوئی رائے دینا چاہیں تو اس نے کہا ....." سسٹم بہت سخت ہے لیکچر کے دوران موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے"  جس سے  ہماری نجی زندگی بہت  ڈسٹرب ہوتی ہے 

  مجھے  اندازہ ہو گیا  کہ اس کا اشارہ پہلے بیان شدہ مسلےکی طرف تھا- یہ کہہ کر وہ  دوبارہ اپنے موبائل میں مصروف ہو گیا 

 میں نے انٹرویو ختم کیا اور جدید دور کے اس عاشق کی پریشانی پر حیران رہ گئی جسے اپنی تعلیم اور  مستقبل سے زیادہ اپنی محبوبہ جسے جدید دور میں گرل فرینڈ کہتے ہیں، کی فکرکھاے جارہی تھی 

عالیہ حسن

 

  
     
       
  

0 comments:

Post a Comment

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔