Wednesday, November 5, 2014







اکثر گلی محلے میں لڑائی جھگڑے کے اختتام پر ایک جملہ گونجتا ہے جسے سن کر تمام حاضرین و ناظرین سیخ پا ہو جاتے ہیں

"سارے ہی تماشبین ہیں "

یہ جملہ اس ہجوم کو منتشر کر نے میں مدد دیتا ہے جو تماشا لگانے والوں کی طرف لوگوں کے  مثبت رویے کا نتیجہ ہوتا ہے

!!!!اب تماشا لگے گا تو لوگ تو دیکھیں گے

پرانے وقتوں کے مداری گلی کوچوں میں لوگوں کو محظوز کرنے کی خاطر تماشا لگا کر پیسے وصول کیا کرتے تھے 

          ترقی فرد اور  وقت کے

 ساتھ ساتھ اس عمل میں کچھ تبدیلی آئی اور آج پیسے    والے اپنی ذات کو محظوظ کرنے کے لئے عام لوگوں سے تماشا کرواتے ہیں اور بدلے میں انھیں سے قیمت بھی وصول کرتے ہیں 

کھیل وہی ہے بس اصول اور کردار بدل دیے گئے ہیں

سب سے واضح اور قریب کی مثال 

........ "پاکستان" ہمارا اپنا ملک

  آج مختلف جدید  مداریوں کے ہاتھ تماشا بن چکا ہے اور ساری دنیا تماشبین- کوئی مداری کو قرضوں کی صورت میں داد دیتا ہے تو کوئی مختلف بندشیں لگا کر تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے- اور عوام کی مثال ایسی ڈھولک کی سی ہے جسے ہر ایرا غیرا دونوں طرف سے بجا رہا ہے 

بہرحال کھیل زوروشور سے جاری و ساری ہے بس  حیرت کی بات یہ ہے کہ مداری اور تماشبن دونوں ایک ہی ہیں 

مداریوں کی مختلف اقسام ہیں جیسے کچھ مداری تھوڑے رحم دل اور شرمیلے ہوتے ہیں  اس لئے وہ اپنا یہ رول پردے کے پیچھے سے بخوبی سرانجام دیتے ہیں،ہچکچاتے ہیں لیکن پیچھے نہیں ہٹتے- اخر ان کی بھی روزی روٹی کا سوال ہے ،عوام کا سوچنے والے تو اور بہت ہیں لیکن اپنا خیال تو خود رکھنا پڑتا ہے 

باقی مداری خوب دلیر اور جانباز ہوتے ہیں جنھیں اگر داد حاصل کرنے کے لئے کسی کی جان کی بازی بھی لگانی پڑے تو ڈرتے نہیں  بس کر گزرتے ہیں 

ہمارا ماضی و حال اس جانبازی کے قصوں سے بھرا ہوا ہے - آے دن ہمارے ہاں ایسے واقعات   رونما ہوتے ہیں لیکن محض خاموشی کے ہم کچھ نہیں کرتے شاید ہم کشمکش کا شکار ہیں کہ آیا ہم تماشبین ہیں یا وہ ڈگڈگی اور ڈھولک جسے بجا کر تماشا کیا جا رہا ہے یا پھر  یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ  ہمارے بنا یہ کیھل چل نہیں سکتا         

 ڈاکٹر، رائیٹر، سیاستدان یہاں تک کہ علما بھی  آج  مداری کا کردار ادا کر رہیں ہیں جو محض اپنے مفاد پر عوام کے مفاد کو ناکارہ نوجوانوں کا  ایسا ہجوم تصور کرتے ہیں جو جب چاہیں گلی محلے میں لڑائی کے لئے جمع ہو جاتا ہے 

ایک جعلی ڈاکٹر پیسے

 کی خاطر مہنگی دوائی اور علاج کی ڈگڈگی بجاتا ہے اور مریض اس بات سے انجان اسے اپنی بھلائی اور سکوں سمجھ کر پیسے لٹا کر تماشا بنتا ہے

ایک رائیٹر اپنے لفظوں کے کھیل سے جیسے اور جب چاہے لوگوں کو چلاتا ہے

افسوس کی بات تو  یہ ہے کہ آج کے علما بھی مداریوں کی ڈھولک بن چکے ہیں جو محض پیسے اور شہرت کی خاطر جھوٹے فتوے دے کر  لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں

اور ہمارے سیاست دان اس بات سے انجان کہ وہ خود کسی کی ڈور میں بندھے ایک جانور کی مانند تماشا بنے ہیں  روز انصاف ، ترقی اور خوشالی کی ڈگڈگی بجا کر لوگوں کو اکھٹا کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے اپنا ہی تماشا بناتے ہیں - ان لوگوں نے  سیاست کو ہی تماشا بنا ڈالا ہے جس کا مقصد ملک یا عوام کا مفاد نہیں بلکہ صرف پیسہ، پاور اور انا کی تسکین ہے

جدید دور اور فاصلوں کی دوری کو مدنظر رکھتے ہویے یہ سیاست دان  اسسٹنٹس کے طور پر کام کر رہیں ہیں جو ان کے بتاے ہوے اشاروں اور اصولوں  پر ہجوم اکھٹا کر کے قیمت کی صورت میں  داد وصول کرتے ہیں-دولت کی ہوس نے انہیں اندھا کر دیا ہے اور عوام کی جان و مال ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی

اب اس صورت حال کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈھولک خود پکار اٹھے کہ    

"سارے ہی تماشبین ہیں "


تحریر:عالیہ حسن