This is featured post 1 title
Replace these every slider sentences with your featured post descriptions.Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha - Premiumbloggertemplates.com.

This is featured post 2 title
Replace these every slider sentences with your featured post descriptions.Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha - Premiumbloggertemplates.com.

This is featured post 3 title
Replace these every slider sentences with your featured post descriptions.Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha - Premiumbloggertemplates.com.

Friday, February 27, 2015


ایک سکے کی طرح سوشل
میڈیا کے بھی دو رخ ہیں ہم ہیڈز اور ٹیلز کے لغوی معنی کو مثبت اور منفی سے مماثلت
سے سکتے ہیں
-
یہ رخ ٹوس کرنے والے یوزر پر منحصر کرتا ہے کہ آیا وہ
سوشل میڈیا کو مثبت
مقاصد کے لئے مثبت طریقے سے استعمال کر رہا
ہے یا منفی مقاصد کے لئے ناجائز طور پر بروۓ
کار لا رہا ہے – سوشل میڈیا کا بڑھتا استعمال اور اس کی مقبولیت و اہمیت سے انکار نہیں
کیا جا سکتا، جسکی وجہ صارفین کو اس کی جانب سے دیے جانے والے ایسے فیچرز ہیں جن کے
ذریعے وہ باآسانی سماجی روابط قائم کر سکتے ہیں ، معلومات ، تصا ویر، ویڈیوز اور مختلف
چیزیں ایک دوسرے سے شئیر کر سکتے ہیں، اپنی دلچسپی کے مطابق تفریح سے وابستہ مواد سے
لطف اندوز ہو سکتے ہیں اس کے علاوہ آن لائن بزنس ، مارکیٹنگ، اور جابز اس کی اہمیت
کو چار چاند لگا دیتے ہیں
فیس بک ، ٹویٹر،
سکائپ، مائے سپیس ، یوٹیوب اور انسٹاگرام زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے چند مشہور سوشل میڈیا میں سے ایک ہیں
- معاشرے میں جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی دریافت
ہوتی ہے تو سب سے پہلے نوجوان نسل میں مقبولیت حاصل کرتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ ہر
عمر کے افراد اسے اپناتے ہیں -
٢٠٠٨ میں شہرت پانے والے سوشل میڈیا خاص طور
پر فیس بک نے ہماری طرز زندگی کو یکسر بدل
کر رکھ دیا ہے –پہلے سوشل میڈیا تک رسائی کے لئے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کو بروئے کار لایا
جاتا تھا ،آج اس کمپیوٹر کی جگہ لیپ ٹاپس ، ٹیبلیٹس ،آئی فونز اور موبائلز جیسی پورٹیبل
ڈیوائسیز نے لے لی ہیں جن میں انٹرنیٹ کی باآسان دستیابی نے سوشل میڈیا کو فروغ دے
کر اس کا استعمال عام بنا دیا ہے – آپ کہیں بھی کسی بھی وقت اسے استعمال کر سکتے ہیں
–اس تبدیلی نے سوشل میڈیا کو اپنی ضرورتوں کے لئے استعمال کرنے کی بجائے اسے ہی ایک
ضرورت بنا دیا ہے
–
موجودہ دور میں ہر
فرد سوشل میڈیا کے استعمال کا عادی ہے – اس
کے جہاں بہت سے فوائد اور مثبت پہلو ہیں وہیں اس کا غلط استعمال اس کے نقصانات میں
بھی وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ کر رہا ہے اور اسے ایک کارآمد کرنسی کی بجائے کھوٹے سکے
میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور ان نقصانات سے لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہوتیں ہیں –
چنانچہ ضرورت اس
امر کی ہے کہ ہم لوگ خاص طور پر
لڑکیوں میں اس چیز
کی آگاہی پیدا کریں کہ وہ کس طرح
سوشل میڈیا کا مثبت
استعمال کر سکتیں ہیں اور سائبر
سائیکوز سے خود کو
دور اور محفوظ رکھ سکتیں ہیں
مندرجہ زیل ہدایات
زیر غور رکھ کر وہ سوشل میڈیا کے مثبت
پہلو سے مستفید ہو
سکتیں ہیں
:
کسی بھی سوشل سائٹ
کی پرائیویسی سیٹنگز کے متعلق مکمل
معلومات ہونی چاہیں کیونکہ وہاں پر دیا گیا آپ کا ای میل
اڈریس اور کنٹیکٹ
نمبر ٹریس کر کے کوئی بھی آپ تک پہنچ سکتا ہے
سوشل میڈیا پر انجان
لوگوں سے دوستی سے گریز کریں
کیونکہ لوگ اپنی
حقیقت کے برعکس خود کو ظاہر کروا کر آپ کا اعتماد حاصل کرتے ہیں – ایسے لوگ زیادہ تر
فیک آئی ڈیز ، جیسے لڑکے لڑکیوں کے نام سے
آئی ڈیز بناتے ہیں اور ذاتی معلومات لے کر بلیک میل کرتے اور نقصان پہنچاتے ہیں –دوست
بناتے ہوئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہر انسان اعتماد کے قابل نہیں ہوتا
کبھی بھی اپنی تصاویر
سوشل سائٹس پر نہ ڈالیں اور نہ ہی سوشل سرکل کو دکھائیں، یہاں تک کہ سوشل میڈیا کی
فی میل دوستوں کو بھی اپنی اور اپنی فمیلی
اور دیگر دوستوں کی تصاویر دکھانے سے گریز کریں کیونکہ یہ تصاویر پورنوگرافی جیسے گھناونے
اور اخلاق سے گرے ہوئے سائبر کرائم میں استعمال کی جا سکتیں ہیں جس کی سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ دیگر میڈیا پر
بھی چرچا ہے اور اس جرم کا شکار خاص طور پر لڑکیاں ہیں اور اس کی وجہ سے کئی لڑکیوں
کی خودکشی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں – فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر موجود لڑکیوں
کی تصاویر کو ایڈٹ کر کے گھٹیا مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے
اپنی پرائیویٹ انفارمیشن
اور روزمرہ کے پلان سوشل سائٹس
پر اپ ڈیٹ کرنے سے
گریز کریں کیونکہ سائبر سٹالکنگ کے زریعے اغواء کے واقعات بھی پیش آ رہے ہیں
سوشل میڈیا پر بنائے
گئے دوستوں سے ویڈیو کالز کرنے
سے حد درجہ گریز کریں
سوشل میڈیا استعمال
کرتے وقت اس بات کا دیھان رکھیں کہ
یہاں ملنے والی محبت
سائبر زدہ بھی ہو سکتی ہے چنانچہ اس سائبر محبت سے بچنے کے لئے اپنے دماغ کی کھڑکیاں
کھول کر رکھیں اور یاد رکھیں کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں سوشل میڈیا پر نہیں
سوشل میڈیا کو میرج
بیورو سمجھنے کی بجائے اسے تفریح
اور مثبت کاموں کے
لئے استعمال کریں
–
سوشل میڈیا پر نظر
آنے والی دوسروں کی زندگی کی ایٹیڈ
حقیقت سے اپنی زندگی کا موازنہ کر کے خود کا
اعتماد کم نہ کریں
کیونکہ اس سے سوائے ڈیپریشن کے اور
کچھ بھی حاصل نہیں
ہوگا
–
ان چند ہدایات کو زیر غور رکھ کر اگر سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائے
تو ہم اور دوسرے تمام سوشل میڈیا پر موجود لوگ اس سے مستفید ہو سکتے ہیں اور اس کے
غلط استعمال سے ہونے والے نقصانات سے دور رہ سکتے ہیں- جب ہم بازار سے کوئی الیکٹرونک
یا دوسری چیز لیتے ہیں تو اس کے اندر اسے استعمال
کرنے کے کچھ قانون اور اصول ایک کاغذ پر موجود ہوتے ہیں ، جن کی پیروی کر کہ ہم اس
چیز کو اپنے لئے فائدہ مند بناتے ہیں اور جن کو نظر انداز کرنے سے ہمارا نقصان ہوتا
ہے اسی طرح ہمیں چاہیے کہ ہم سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کہ کچھ اصول اپنی میموری میں لکھ کر محفوظ کر لیں تاکہ ہم ان کے انحراف سے ہونے والے نقصانات سے بچ سکیں اور
سوشل میڈیا کو اپنے اور دوسروں کے لئے فائدہ مند بنا سکیں -
تحریر : عالیہ حسن
Thursday, January 8, 2015


ہمارے معاشرے میں عورت کی تعلیم کو زیادہ اہمیت
نہیں دی جاتی اور اس کو چادر اور چار دیواری کی گانٹھ میں باندھ دیا جاتا ہے- گھر
کے کام کاج، بچوں کی دیکھ بھال اور گھر والوں کی خدمات سر انجام دینا ہی فقط اس کا
کام سمجھا جاتا ہے – اس کی زندگی کا محور صرف اس دائرے تک محدود کر دیا گیا ہے-
اگر کوئی اپنے حق اور آزادی کی خاطر آواز بلند کرنے کی جرات کرے تو کئی ہاتھ اسے
چپ کروانے کے لئے اٹھتے ہیں اور ان ہاتھوں کو روکنے والا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا
برائی چادر اور چار دیواری میں نہیں بلکہ اس سوچ
میں ہے جو عورت کی تعلیم اور آزادی کو برائی سمجھتی ہے !
مرد کی تعلیم صرف ایک فرد کی حد تک ہے – وہ پڑھ
لکھ کر محض اپنی زندگی سنوارے گا- اس کی سوچ میں تبدیلی اس کی زندگی کو بہتر کرے
گی اور وہ کامیابی کے راستے
سے اگاہ ہوگا.....
لیکن عورت، جیسے نپولین بونا پاٹ نے کہا :
تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تمہیں پڑھی
لکھی اور تہذیب یافتہ قوم دوں گا-
یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس سوچ کو بدلیں
جو عورت کی تعلیم کے راستے میں رکاوٹ ہے کیونکہ غلام اور جاہل مائیں، غلام اور
جاہل نسلوں کو جنم دیتی ہیں اور یہ نسلیں قوم کی تباہی کا باعث بنتیں ہیں –
آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو
بیٹیوں کی تعلیم پر انویسٹمنٹ اس لئے نہیں کرتے کہ انھیں مستقبل میں اسکا کوئی
پرافٹ نہیں ملے گا – اور اگر کوئی لڑکی تعلیم حاصل کرنے کی خواھش ظاہر کرتی ہے تو
اسے یہ کہہ کر خاموش کروا دیا جاتا ہے
" کیا کرنا ہے پڑھ لکھ کر ؟ گھر گرہستی سیکھو جو آگے جا کر کام آنی ہے ، ہم
نے کون سی نوکریاں کروانی ہیں"
یہ روایتی جملہ ایسی سوچ کو ظاہر کرتا ہے جو
تعلیم نسواں کو اپنے نفع اور نقصان کے ترازو میں تولتی ہے- جو عورت کی تعلیم کو
محض وقت اور پیسے کا ضیائع سمجھتی ہے- جس کے لئے عورت کی بہترین جگہ باورچی خانہ
ہے – جو علم کے حقیقی معنی اور اہمیت سے نا واقف ہے- اسی سوچ کی بنیاد پر ہزار ہا لڑکیاں
اپنے اس حق سے محروم کر دیں جاتیں ہیں-
شرعی پردے کی آڑ میں انہیں تعلیم سے دور رکھا
جاتا ہے –
حدیث نبوی ہے:
علم حاصل کرو ، چاہے تمہیں
چین ہی کیوں نہ جانا پڑے " ہمارے ہاں چین تو کیا اپنے ہی شہر کے اسکول و
کالج نہیں بیھجا جاتا
ایک اور حدیث ہے :
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر
فرض ہے "
جبکہ قرآن پاک میں سب سے پہلی آیت ہی علم کے لئے
تھی- اس سے علم کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے – شرک دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ تھا لیکن
الله تعالی نے سب سے پہلے توحید کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ علم کو عام کیا- علم کے
بعد پھر توحید کے بارے میں کہا چونکہ الله کی توحید کو سمجھنے کے لئے علم فہم
راستہ ہے- قرآن پاک میں تین سو پچاس آیات علم کے حوالے سے ہیں- سات سو پچاس آیات
انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں، شعور کی بات کرتی ہیں –
الله تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں :
"کیا
جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں"۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
جو علم کے راستے پر چلتا ہے الله اس کا راستہ
آسان کرتا ہے-
ان تمام آیات میں کہیں بھی جنسی تفریق کا ذکر
نہیں ہے ، الله تعالی نے مرد اور عورت دونوں کو علم حاصل کرنے کی تلقین کی ہے
.........یہ تفریق انسان کی تخلیق کردہ ہے-
جاگیردانہ سوچ رکھنے والے لوگ عورت کو حقیر جان
کر اس کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں، ان کے خیال سے عورت کو تعلیم حاصل کرنے کی
کوئی ضرورت نہیں ہے –
وہ اس حقیقت
سے لاعلم ہیں کہ علم تو وہ ضرورت
ہے جسکا پورا ہونا ہر انسان کا حق ہے اب یہ اس فرد پر منحصر کرتا ہے کہ آیا وہ
اندھیروں کو اپنا مقدار بنانا چاہتا ہے یا اس حق کا حصول – البتہ کسی دوسرے فرد کو
ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو بھی اس کے اس حق سے محروم کرے اور اس ضرورت کے
پورا ہونے سے ملنے والی آزادی اس سے چھین لے –
علم سے ملنے والی آزادی سے مراد وہ مغربیت زدہ آزادی
ہرگز نہیں جو معاشرے کے جاہل اور تنگ نظر لوگوں نے پڑھی لکھی خواتین سے وابستہ
آزادی کو تصور کر رکھا ہے – ان کا سوچنا ہے کہ پڑھی لکھی خواتین خودمختار ہو جاتی ہیں ، جو
چاہے وہ کرتی ہیں – ان کا جو جی چاہے وہ کرنا ان کے نزدیک اس لئےغلط ہے کیونکہ وہ
عورت ہے اور یہ حق صرف مرد کو حاصل ہے-
پڑھی لکھی خواتین گھر بسانے کے قابل نہیں رہتیں اس لئے کہ وہ اپنے
حقوق سے اگاہ ہو کر ان کا مطالبہ کرتیں ہیں اور حق تلفی کرنے والوں کے خلاف آواز
بلند کرتیں ہیں – اور ہمارے معاشرے میں سمجھدار عورت تو وہی ہے جو اپنے ساتھ ہونے
والے ہر ظلم اور زیادتی کو خاموشی سے
برداشت کرے ، چپ رہے –
پڑھی لکھی خواتین حیا کی پاسدار نہیں رہتیں اور
ازدواجی زندگی میں وہ اپنی زمہ داریوں سے خود کو آزاد اور بالاترتصور کرتیں ہیں –
مختصر یہ کہ ان کے مطابق تعلیم خواتین کے لئے
مضر اخلاق و کردار ہے- انھیں تعلیم سے دور رکھ کر ہی وہ شرعی پردے کی پاسداری کروا
سکتے ہیں – ان کے کردار کی پختگی اور
اخلاق کی بہتری اسی میں ہے-
اسی سوچ کی وجہ سے ہمارے معاشرے کے کئی لوگ
معاشی وسائل ہونے کے باوجود اپنی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کرتے اور
نہ ہی اس کے حق میں ہیں – یہ لوگ آج بھی سو سال پرانی فرسودہ روایات میں الجھے
ہوئے ہیں جب معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں تھی جبکہ معیشت ہو ،
فوج ہو، انجینئرنگ ہو یا کوئی بھی حکومتی ادارہ ،
خواتین ہر سطح پر ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور ہم اپنے ملک میں خواتین
کے کردار کی نفی نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے لئے تعلیم کی اہمیت کو، کیوںکہ عورت اپنے اعتبار سے تو ایک فرد ہے لیکن
وہ پوری سوسائٹی کے کردار کو تشکیل دیتی ہے- کیونکہ سوسائٹی کا ہر فرد اس کی گود سے
پرورش پا کر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بھی عورت کی دینی اور دنیاوی تعلیم
حاصل کرنے پر تلقین کی ہے –
ہمیں لڑکیوں کی تعلیم کیلئے والدین کو قائل کرنے،
ان کو تعلیم کے معنی اور فوائد سے اگاہ کرنے کی ضرورت ہے .
" سوچ
بدلنے کی ضرورت ہے "
تحریر :عالیہ حسن
Subscribe to:
Posts (Atom)