Friday, February 27, 2015

 








ایک سکے کی طرح سوشل میڈیا کے بھی دو رخ ہیں ہم ہیڈز اور ٹیلز کے لغوی معنی کو مثبت اور منفی سے مماثلت سے سکتے ہیں -

 یہ رخ ٹوس کرنے والے یوزر پر منحصر کرتا ہے کہ آیا وہ
سوشل میڈیا کو مثبت مقاصد کے لئے  مثبت طریقے سے استعمال کر رہا ہے یا منفی مقاصد کے لئے  ناجائز طور پر بروۓ کار لا رہا ہے – سوشل میڈیا کا بڑھتا استعمال اور اس کی مقبولیت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، جسکی وجہ صارفین کو اس کی جانب سے دیے جانے والے ایسے فیچرز ہیں جن کے ذریعے وہ باآسانی سماجی روابط قائم کر سکتے ہیں ، معلومات ، تصا ویر، ویڈیوز اور مختلف چیزیں ایک دوسرے سے شئیر کر سکتے ہیں، اپنی دلچسپی کے مطابق تفریح سے وابستہ مواد سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اس کے علاوہ آن لائن بزنس ، مارکیٹنگ، اور جابز اس کی اہمیت کو  چار چاند لگا دیتے ہیں

فیس بک ، ٹویٹر، سکائپ، مائے سپیس ، یوٹیوب اور انسٹاگرام زیادہ استعمال ہونے  کی وجہ سے چند مشہور سوشل میڈیا میں سے ایک ہیں - معاشرے میں جب  بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی دریافت ہوتی ہے تو سب سے پہلے نوجوان نسل میں مقبولیت حاصل کرتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ ہر عمر کے افراد اسے اپناتے ہیں -

 ٢٠٠٨ میں شہرت پانے والے سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک نے ہماری  طرز زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے –پہلے سوشل میڈیا تک رسائی کے لئے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کو بروئے کار لایا جاتا تھا ،آج اس کمپیوٹر کی جگہ لیپ ٹاپس ، ٹیبلیٹس ،آئی فونز اور موبائلز جیسی پورٹیبل ڈیوائسیز نے لے لی ہیں جن میں انٹرنیٹ کی باآسان دستیابی نے سوشل میڈیا کو فروغ دے کر اس کا استعمال عام بنا دیا ہے – آپ کہیں بھی کسی بھی وقت اسے استعمال کر سکتے ہیں –اس تبدیلی نے سوشل میڈیا کو اپنی ضرورتوں کے لئے استعمال کرنے کی بجائے اسے ہی ایک ضرورت بنا دیا ہے


موجودہ دور میں ہر فرد سوشل میڈیا  کے استعمال کا عادی ہے – اس کے جہاں بہت سے فوائد اور مثبت پہلو ہیں وہیں اس کا غلط استعمال اس کے نقصانات میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ کر رہا ہے اور اسے ایک کارآمد کرنسی کی بجائے کھوٹے سکے میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور ان نقصانات سے لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہوتیں ہیں


چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم لوگ خاص طور پر
لڑکیوں میں اس چیز کی آگاہی پیدا کریں کہ وہ کس طرح
سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کر سکتیں ہیں اور سائبر
سائیکوز سے خود کو دور اور محفوظ رکھ سکتیں ہیں



مندرجہ زیل ہدایات زیر غور رکھ کر وہ سوشل میڈیا کے مثبت

پہلو سے مستفید ہو سکتیں ہیں :



کسی بھی سوشل سائٹ کی پرائیویسی سیٹنگز کے متعلق مکمل
معلومات ہونی  چاہیں کیونکہ وہاں پر دیا گیا آپ کا ای میل
اڈریس اور کنٹیکٹ نمبر ٹریس کر کے کوئی بھی آپ تک پہنچ سکتا ہے


سوشل میڈیا پر انجان لوگوں سے دوستی سے گریز کریں
کیونکہ لوگ اپنی حقیقت کے برعکس خود کو ظاہر کروا کر آپ کا اعتماد حاصل کرتے ہیں – ایسے لوگ زیادہ تر فیک آئی  ڈیز ، جیسے لڑکے لڑکیوں کے نام سے آئی ڈیز بناتے ہیں اور ذاتی معلومات لے کر بلیک میل کرتے اور نقصان پہنچاتے ہیں –دوست بناتے ہوئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہر انسان اعتماد کے قابل نہیں ہوتا


کبھی بھی اپنی تصاویر سوشل سائٹس پر نہ ڈالیں اور نہ ہی سوشل سرکل کو دکھائیں، یہاں تک کہ سوشل میڈیا کی فی میل دوستوں کو بھی اپنی اور  اپنی فمیلی اور دیگر دوستوں کی تصاویر دکھانے سے گریز کریں کیونکہ یہ تصاویر پورنوگرافی جیسے گھناونے اور اخلاق سے گرے ہوئے سائبر کرائم میں استعمال کی جا سکتیں  ہیں جس کی سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ دیگر میڈیا پر بھی چرچا ہے اور اس جرم کا شکار خاص طور پر لڑکیاں ہیں اور اس کی وجہ سے کئی لڑکیوں کی خودکشی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں – فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر موجود لڑکیوں کی تصاویر کو ایڈٹ کر کے گھٹیا مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے



اپنی پرائیویٹ انفارمیشن اور روزمرہ کے پلان سوشل سائٹس
پر اپ ڈیٹ کرنے سے گریز کریں کیونکہ سائبر سٹالکنگ کے زریعے اغواء کے واقعات بھی پیش آ رہے ہیں

سوشل میڈیا پر بنائے گئے دوستوں سے ویڈیو کالز کرنے
 سے حد درجہ گریز کریں


سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت اس بات کا دیھان رکھیں کہ
یہاں ملنے والی محبت سائبر زدہ بھی ہو سکتی ہے چنانچہ اس سائبر محبت سے بچنے کے لئے اپنے دماغ کی کھڑکیاں کھول کر رکھیں اور یاد رکھیں کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں سوشل میڈیا پر نہیں


سوشل میڈیا کو میرج بیورو سمجھنے کی بجائے اسے تفریح
اور مثبت کاموں کے لئے استعمال کریں


سوشل میڈیا پر نظر آنے والی دوسروں کی زندگی کی ایٹیڈ
 حقیقت سے اپنی زندگی کا موازنہ کر کے خود کا
اعتماد کم نہ کریں کیونکہ اس سے سوائے ڈیپریشن کے اور
کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا

 ان چند ہدایات کو زیر غور رکھ کر اگر سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائے تو ہم اور دوسرے تمام سوشل میڈیا پر موجود لوگ اس سے مستفید ہو سکتے ہیں اور اس کے غلط استعمال سے ہونے والے نقصانات سے دور رہ سکتے ہیں- جب ہم بازار سے کوئی الیکٹرونک یا دوسری چیز لیتے ہیں تو اس کے اندر اسے  استعمال کرنے کے کچھ قانون اور اصول ایک کاغذ پر موجود ہوتے ہیں ، جن کی پیروی کر کہ ہم اس چیز کو اپنے لئے فائدہ مند بناتے ہیں اور جن کو نظر انداز کرنے سے ہمارا نقصان ہوتا ہے اسی طرح ہمیں چاہیے کہ ہم سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کہ کچھ اصول اپنی میموری   میں لکھ کر محفوظ کر لیں تاکہ ہم  ان کے انحراف سے ہونے والے نقصانات سے بچ سکیں اور سوشل میڈیا کو اپنے اور دوسروں کے لئے فائدہ مند بنا سکیں -

تحریر : عالیہ حسن

Thursday, January 8, 2015










ہمارے معاشرے میں عورت کی تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دی  جاتی اور اس کو چادر اور چار دیواری کی گانٹھ میں باندھ دیا جاتا ہے- گھر کے کام کاج، بچوں کی دیکھ بھال اور گھر والوں کی خدمات سر انجام دینا ہی فقط اس کا کام سمجھا جاتا ہے – اس کی زندگی کا محور صرف اس دائرے تک محدود کر دیا گیا ہے- اگر کوئی اپنے حق اور آزادی کی خاطر آواز بلند کرنے کی جرات کرے تو کئی ہاتھ اسے چپ کروانے کے لئے اٹھتے ہیں اور ان ہاتھوں کو روکنے والا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا

برائی چادر اور چار دیواری میں نہیں بلکہ اس سوچ میں ہے جو عورت کی تعلیم اور آزادی کو برائی سمجھتی ہے !

مرد کی تعلیم صرف ایک فرد کی حد تک ہے – وہ پڑھ لکھ کر محض اپنی زندگی سنوارے گا- اس کی سوچ میں تبدیلی اس کی زندگی کو بہتر کرے گی اور وہ کامیابی کے راستے 
سے اگاہ ہوگا.....

 لیکن عورت، جیسے نپولین بونا پاٹ نے کہا :

تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تمہیں پڑھی لکھی اور تہذیب یافتہ قوم دوں گا-

یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس سوچ کو بدلیں جو عورت کی تعلیم کے راستے میں رکاوٹ ہے کیونکہ غلام اور جاہل مائیں، غلام اور جاہل نسلوں کو جنم دیتی ہیں اور یہ نسلیں قوم کی تباہی کا باعث بنتیں ہیں –

آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بیٹیوں کی تعلیم پر انویسٹمنٹ اس لئے نہیں کرتے کہ انھیں مستقبل میں اسکا کوئی پرافٹ نہیں ملے گا – اور اگر کوئی لڑکی تعلیم حاصل کرنے کی خواھش ظاہر کرتی ہے تو اسے یہ کہہ  کر خاموش کروا دیا جاتا ہے " کیا کرنا ہے پڑھ لکھ کر ؟ گھر گرہستی سیکھو جو آگے جا کر کام آنی ہے ، ہم نے کون سی نوکریاں کروانی ہیں"

یہ روایتی جملہ ایسی سوچ کو ظاہر کرتا ہے جو تعلیم نسواں کو اپنے نفع اور نقصان کے ترازو میں تولتی ہے- جو عورت کی تعلیم کو محض وقت اور پیسے کا ضیائع سمجھتی ہے- جس کے لئے عورت کی بہترین جگہ باورچی خانہ ہے – جو علم کے حقیقی معنی اور اہمیت سے نا واقف ہے- اسی سوچ کی بنیاد پر ہزار ہا لڑکیاں اپنے اس حق سے محروم کر دیں جاتیں ہیں-

شرعی پردے کی آڑ میں انہیں تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے –

حدیث نبوی ہے:

علم حاصل کرو ، چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے " ہمارے ہاں چین تو کیا اپنے ہی شہر کے اسکول و کالج نہیں بیھجا جاتا 

ایک اور حدیث ہے :
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے "

جبکہ قرآن پاک میں سب سے پہلی آیت ہی علم کے لئے تھی- اس سے علم کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے – شرک دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ تھا لیکن الله تعالی نے سب سے پہلے توحید کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ علم کو عام کیا- علم کے بعد پھر توحید کے بارے میں کہا چونکہ الله کی توحید کو سمجھنے کے لئے علم فہم راستہ ہے- قرآن پاک میں تین سو پچاس آیات علم کے حوالے سے ہیں- سات سو پچاس آیات انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں، شعور کی بات کرتی ہیں –

الله تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں :
"کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں"۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے :
جو علم کے راستے پر چلتا ہے الله اس کا راستہ آسان کرتا ہے-

ان تمام آیات میں کہیں بھی جنسی تفریق کا ذکر نہیں ہے ، الله تعالی نے مرد اور عورت دونوں کو علم حاصل کرنے کی تلقین کی ہے .........یہ تفریق انسان کی تخلیق کردہ ہے-

جاگیردانہ سوچ رکھنے والے لوگ عورت کو حقیر جان کر اس کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں، ان کے خیال سے عورت کو تعلیم حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے –
وہ اس حقیقت  سے لاعلم  ہیں کہ علم تو وہ ضرورت ہے جسکا پورا ہونا ہر انسان کا حق ہے اب یہ اس فرد پر منحصر کرتا ہے کہ آیا وہ اندھیروں کو اپنا مقدار بنانا چاہتا ہے یا اس حق کا حصول – البتہ کسی دوسرے فرد کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو بھی اس کے اس حق سے محروم کرے اور اس ضرورت کے پورا ہونے سے ملنے والی آزادی اس سے چھین لے –

علم سے ملنے والی آزادی سے مراد وہ مغربیت زدہ آزادی ہرگز نہیں جو معاشرے کے جاہل اور تنگ نظر لوگوں نے پڑھی لکھی خواتین سے وابستہ آزادی کو تصور کر رکھا ہے – ان کا سوچنا ہے کہ  پڑھی لکھی خواتین خودمختار ہو جاتی ہیں ، جو چاہے وہ کرتی ہیں – ان کا جو جی چاہے وہ کرنا ان کے نزدیک اس لئےغلط ہے کیونکہ وہ عورت ہے اور یہ حق صرف مرد کو حاصل  ہے-

پڑھی لکھی خواتین  گھر بسانے کے قابل نہیں رہتیں اس لئے کہ وہ اپنے حقوق سے اگاہ ہو کر ان کا مطالبہ کرتیں ہیں اور حق تلفی کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کرتیں ہیں – اور ہمارے معاشرے میں سمجھدار عورت تو وہی ہے جو اپنے ساتھ ہونے والے  ہر ظلم اور زیادتی کو خاموشی سے برداشت کرے ، چپ رہے –

پڑھی لکھی خواتین حیا کی پاسدار نہیں رہتیں اور ازدواجی زندگی میں وہ اپنی زمہ داریوں سے خود کو آزاد اور بالاترتصور کرتیں ہیں –

مختصر یہ کہ ان کے مطابق تعلیم خواتین کے لئے مضر اخلاق و کردار ہے- انھیں تعلیم سے دور رکھ کر ہی وہ شرعی پردے کی پاسداری کروا سکتے ہیں – ان کے کردار کی پختگی  اور اخلاق کی بہتری اسی میں ہے-

اسی سوچ کی وجہ سے ہمارے معاشرے کے کئی لوگ معاشی وسائل ہونے کے باوجود اپنی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے حق میں ہیں – یہ لوگ آج بھی سو سال پرانی فرسودہ روایات میں الجھے ہوئے ہیں جب معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں تھی جبکہ معیشت ہو ، فوج ہو، انجینئرنگ ہو یا کوئی بھی حکومتی ادارہ ،  خواتین ہر سطح پر ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور ہم اپنے ملک میں خواتین کے کردار کی نفی نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے لئے تعلیم کی اہمیت کو،  کیوںکہ عورت اپنے اعتبار سے تو ایک فرد ہے لیکن وہ پوری سوسائٹی کے کردار کو تشکیل دیتی  ہے- کیونکہ سوسائٹی کا ہر فرد اس کی گود سے پرورش پا کر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بھی عورت کی دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کرنے پر تلقین کی ہے –

ہمیں لڑکیوں کی تعلیم کیلئے والدین کو قائل کرنے، ان کو تعلیم کے معنی اور فوائد سے اگاہ کرنے کی ضرورت ہے .

 " سوچ بدلنے کی ضرورت ہے "
     
 تحریر :عالیہ حسن 


Saturday, December 6, 2014








موجوده حالات و واقعات دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے 
کہ اب ہم کسی صورت بہتری حاصل نہیں کر سکتے – حالات بد سے بدتر ہوتے نظر آ رہے ہیں – انسان میں دنیاوی لگاؤ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب وہ اپنی خواھشات اور مقاصد کے حصول میں اخلاقیات کی کسی حد کو پار کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتا – یہاں بھینس کی ملکیت کو نظر انداز کر کے ملکیت لاٹھی پر زور دیا جاتا ہے-  امیر امیرتر  اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے – مہنگائی کا جن غریب کے گھر میں اس طرح بسیرا کر چکا ہے کہ اب کوئی سیاسی بابا اپنے بےاثر نعروں کے تعویز سے اسے نکال نہیں سکتا-   انسان کچھ یوں  بے حس ہو چکا ہے کے اسے  کسی کی تکلیف، خوشی و رنج سے کوئی سروکار نہیں بس اپنا مقصد 
-پورا ہونا چایئے 

 موجوده صورتحال یہ ہے کہ تعریف کرپشن میں ردوبدل کر کے لوگوں نے اسے ہر اس پیمانے پر اختیار کر لیا  ہے جس میں وہ اپنا سامان تولتے ہیں –انکے لئے کرپشن وہی ہے جو کوئی دوسرا کرتا ہے اور ان کی کی گئی دھاندلی و زیادتی انکا حق ہے – اب اگر اپنے حق کے حصول سے  کسی اور کا نقصان ہوتا ہے تو ان کی بلا سے – تحائف کا ٹیگ لگا کر رشوت دینا اور لینا معمول بن چکا ہے – ایسا کوئی شعبہ نہیں جہاں رشوت و سفارش  نہ چلتی ہو – چپڑاسی سے لے کر اعلی -افسران تک تمام ان تحائف میں چھپے خلوص کے زیراثر ہیں-

سیاست ہو یا لاء اینڈ آڈر ، صحت ہو یا تعلیم ایسا کوئی محکمہ نہیں جہاں کوئی کسی کے ساتھ ظلم  نہ کرتا ہو، اس کا حق نہ چھینتا ہو – لوگوں نے پیسہ، پاور، اقتدار و شہرت ہی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے – اور کامیاب و خوشحال زندگی کے تمام قوائد بھلا کر وہ خود کو کامیاب بنانے اور ایک خوشحال زندگی جینے کی امید میں مصروف ہیں –

نوکری کے لئے انٹرویو میں پاس ہونا ہو یا اعلی عہدے   ٹرانسفر کروانا ہو ، کالج و یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہو یا امتحان میں پاس ہونا ہو، قطار میں کھڑے ہو کر انتظار سے بچنا ہو یا ٹریفک قوانین توڑنے کے جرمانے سے ، رشوت سہل راستہ ہے –

آج محکمہ صحت میں لوگوں کی جان بچانے کی بجائے پیسہ وصول کرنا مقصد بن چکا ہے ، جس کے تحت حکومت کی طرف سے غریبوں کو دی گئی مفت ادوایات بھی فروخت کی جا رہیں ہیں، یہاں تک کہ لوگوں کی جانب سے عطیہ کی جانے والی مشینری بھی آگے بیچ دے جاتی ہے - اعلی عہدوں پر فائز نااہل ڈاکٹرز کی بڑھتی  تعداد اور جعلی ادوایات کی بڑھتی فروخت مریضوں کے لئے خطرہ بن چکی ہے اور اس غفلت کے باعث آئے روز ہمیں کئی ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے – اہل وعیال کے احتجاج کرنے پر افسران نوٹس تو لیتے ہیں لیکن ریت کے مطابق زمہ داران کے خلاف موجود فائلز پیسوں کے وزن تلے دب جاتیں ہیں- 

تعلیمی صورتحال یہ ہے کے حکومت کی جانب سے طلباء طالبات کو دی جانے والی مفت درسی کتب ردی کے بھاؤ بیچ دی جاتیں ہیں – میریٹ پر پورا نہ ہونے کے باوجود رشوت لے کر داخلہ دیا جاتا ہے اور اہل طلباء و طالبات کا حق چھین لیا جاتا ہے – امتحانات میں رشوت کے ذریعے نمبر بڑھوا ئے جاتے ہیں یہاں تک کہ امتحان ہی امیدوار کا کوئی عزیز دیتا ہے اور اگر شازو ناظر کوئی پکڑا ہی جائے تو معاملہ افسران تک پہنچنے سے پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے – سرکاری تعلیمی اداروں کے  نصاب میں سال ہا سال کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی جس سے نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کا فرق بڑھتا چلا جا رہا ہے یہاں تک کہ حکومت کی جانب سے ذہین طلبہ کو دی جانے والی اسکالر شپ تک ہڑپ لی جاتی ہے -  

لاء اینڈ آرڈر کے محکمہ میں بدعنوانی عروج پر ہے – یہاں قانون محض کمزور کے لئے بنتا اور لاگو ہوتا ہے – طاقت ور اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے – اگر کمزور کوئی قانون توڑے تو اس پر جرمانہ اور سزا عائد کیا جاتا ہے اور اگر امیر ایسا کچھ کرے تو سفارش اور طاقت کے بل پر اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا – قوانین موجود ہیں لیکن بدعنوانی اور گورننس کے نقائص کے باعث ان پر عمل نہیں کیا جاتا ہے –دھاندلی، رشوت، قتل و ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث افراد بڑی شان سے کھلے عام گھومتے ہیں جن پر کیس تو درج ہوتا ہے لیکن انکوائری کے لئے ان کی فائلز نوٹوں کے ملبے تلے دبا دی جاتیں ہیں جو تاحال وہاں سے نکل نہیں سکتیں –

غرض ہر محکمہ اقربا  پروری، بدعنوانی ، ڈسپلن کے فقدان اور غفلت کا شکار ہے – یہ تمام محکمے ہی ملک کی بنیاد مظبوط بناتے ہیں اگر محکموں کو بدعنوانی اور غفلت سے چھلنی کر دیا جائے تو ملک کی ترقی و  خوشحالی کا سوچنا فقد ہوائی قلعے تعمیر کرنے کی مانند ہو گا- اس تمام صورت حال سے اور بہت سے مسائل جانم لے رہے ہیں جن میں سرفہرست مہنگائی، بیروزگاری اور تعلیم کا فقدان ہے –

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تمام صورت حال کو بیرونی ہاتھ کا شاخسانہ قرار دے کر خود کو بےبس اور معصوم ظاہر کرتے ہیں جو کہ کچھ نہ کرنے کی طبیعت کو ظاہر کرتا ہے – ہم کچھ کر نہیں سکتے یا کرنا نہیں چاہتے؟ ہم چاہیں تو ان تمام محکمات میں موجود نقائص کو ڈسپلن رائج کر کے ، اقربا پروری سے گریز کر کے ، بدعنوانی جڑ سے ختم کر کے ، قوانین کو سب پر برابر کا لاگو کر کے ، ٹیکس کی ادائیگی سے، غیر جانبداریت اپنا کر اور ہر کام ایمانداری سے کر کے ختم کر سکتے ہیں – جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں اور جو کرنا چاہتے ہیں ان کو کرنے نہیں دیا جاتا – ہمیں خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے.....جو ہمارے بس میں ہے -
تبدیلی اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے !


تحریر : عالیہ حسن  

 

Wednesday, November 5, 2014







اکثر گلی محلے میں لڑائی جھگڑے کے اختتام پر ایک جملہ گونجتا ہے جسے سن کر تمام حاضرین و ناظرین سیخ پا ہو جاتے ہیں

"سارے ہی تماشبین ہیں "

یہ جملہ اس ہجوم کو منتشر کر نے میں مدد دیتا ہے جو تماشا لگانے والوں کی طرف لوگوں کے  مثبت رویے کا نتیجہ ہوتا ہے

!!!!اب تماشا لگے گا تو لوگ تو دیکھیں گے

پرانے وقتوں کے مداری گلی کوچوں میں لوگوں کو محظوز کرنے کی خاطر تماشا لگا کر پیسے وصول کیا کرتے تھے 

          ترقی فرد اور  وقت کے

 ساتھ ساتھ اس عمل میں کچھ تبدیلی آئی اور آج پیسے    والے اپنی ذات کو محظوظ کرنے کے لئے عام لوگوں سے تماشا کرواتے ہیں اور بدلے میں انھیں سے قیمت بھی وصول کرتے ہیں 

کھیل وہی ہے بس اصول اور کردار بدل دیے گئے ہیں

سب سے واضح اور قریب کی مثال 

........ "پاکستان" ہمارا اپنا ملک

  آج مختلف جدید  مداریوں کے ہاتھ تماشا بن چکا ہے اور ساری دنیا تماشبین- کوئی مداری کو قرضوں کی صورت میں داد دیتا ہے تو کوئی مختلف بندشیں لگا کر تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے- اور عوام کی مثال ایسی ڈھولک کی سی ہے جسے ہر ایرا غیرا دونوں طرف سے بجا رہا ہے 

بہرحال کھیل زوروشور سے جاری و ساری ہے بس  حیرت کی بات یہ ہے کہ مداری اور تماشبن دونوں ایک ہی ہیں 

مداریوں کی مختلف اقسام ہیں جیسے کچھ مداری تھوڑے رحم دل اور شرمیلے ہوتے ہیں  اس لئے وہ اپنا یہ رول پردے کے پیچھے سے بخوبی سرانجام دیتے ہیں،ہچکچاتے ہیں لیکن پیچھے نہیں ہٹتے- اخر ان کی بھی روزی روٹی کا سوال ہے ،عوام کا سوچنے والے تو اور بہت ہیں لیکن اپنا خیال تو خود رکھنا پڑتا ہے 

باقی مداری خوب دلیر اور جانباز ہوتے ہیں جنھیں اگر داد حاصل کرنے کے لئے کسی کی جان کی بازی بھی لگانی پڑے تو ڈرتے نہیں  بس کر گزرتے ہیں 

ہمارا ماضی و حال اس جانبازی کے قصوں سے بھرا ہوا ہے - آے دن ہمارے ہاں ایسے واقعات   رونما ہوتے ہیں لیکن محض خاموشی کے ہم کچھ نہیں کرتے شاید ہم کشمکش کا شکار ہیں کہ آیا ہم تماشبین ہیں یا وہ ڈگڈگی اور ڈھولک جسے بجا کر تماشا کیا جا رہا ہے یا پھر  یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ  ہمارے بنا یہ کیھل چل نہیں سکتا         

 ڈاکٹر، رائیٹر، سیاستدان یہاں تک کہ علما بھی  آج  مداری کا کردار ادا کر رہیں ہیں جو محض اپنے مفاد پر عوام کے مفاد کو ناکارہ نوجوانوں کا  ایسا ہجوم تصور کرتے ہیں جو جب چاہیں گلی محلے میں لڑائی کے لئے جمع ہو جاتا ہے 

ایک جعلی ڈاکٹر پیسے

 کی خاطر مہنگی دوائی اور علاج کی ڈگڈگی بجاتا ہے اور مریض اس بات سے انجان اسے اپنی بھلائی اور سکوں سمجھ کر پیسے لٹا کر تماشا بنتا ہے

ایک رائیٹر اپنے لفظوں کے کھیل سے جیسے اور جب چاہے لوگوں کو چلاتا ہے

افسوس کی بات تو  یہ ہے کہ آج کے علما بھی مداریوں کی ڈھولک بن چکے ہیں جو محض پیسے اور شہرت کی خاطر جھوٹے فتوے دے کر  لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں

اور ہمارے سیاست دان اس بات سے انجان کہ وہ خود کسی کی ڈور میں بندھے ایک جانور کی مانند تماشا بنے ہیں  روز انصاف ، ترقی اور خوشالی کی ڈگڈگی بجا کر لوگوں کو اکھٹا کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے اپنا ہی تماشا بناتے ہیں - ان لوگوں نے  سیاست کو ہی تماشا بنا ڈالا ہے جس کا مقصد ملک یا عوام کا مفاد نہیں بلکہ صرف پیسہ، پاور اور انا کی تسکین ہے

جدید دور اور فاصلوں کی دوری کو مدنظر رکھتے ہویے یہ سیاست دان  اسسٹنٹس کے طور پر کام کر رہیں ہیں جو ان کے بتاے ہوے اشاروں اور اصولوں  پر ہجوم اکھٹا کر کے قیمت کی صورت میں  داد وصول کرتے ہیں-دولت کی ہوس نے انہیں اندھا کر دیا ہے اور عوام کی جان و مال ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی

اب اس صورت حال کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈھولک خود پکار اٹھے کہ    

"سارے ہی تماشبین ہیں "


تحریر:عالیہ حسن 

 

Wednesday, October 29, 2014









گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرتی دنیا میں اہم کردار ادا کرنے والا سوشل میڈیا آج مفکرین کی نظر میں ایک سوال کی صورت اختیار کر چکا ہے جسکی بڑی وجہ زیادہ تر نوجوانون کا اپنا قیمتی وقت سوشل نیٹورکنگ سائٹس پر گزارنا  ہے - 



اس سوال کا جواب اس کے استعمال پر منحصر کرتا ہے کے آیا مثبت استعمال کر کے اس کو سہولت کے طور پر بروے کار لایا جا رہا ہے یا منفی استعمال سے خود کے اور معاشرے کے لئے زحمت بنا کر وقت کو برباد کیا جا رہا ہے-




انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں سوشل میڈیا دن بدن لوگوں میں مقبول ہو رہا ہے جسکی بڑی وجہ اسکی جانب سے دے گیے ایسے فیچرز ہیں جو  زندگی کے ہر کام کو آسان سے آسان تر کرتے جا رہیں ہیں- آن لائن مارکیٹنگ نے خریدو فروخت کو سہل بنا دیا ہے، آن لائن جابز، بینکنگ، ووٹنگ، ایجوکیشن غرض ہر ہی پہلو اور شعبۂ کو سوشل میڈیا نے گھیر لیا ہے-    




جیسے سوشل میڈیا کی یہ  مختلف اقسام .... سوشل نیٹورکنگ سائٹس لوگوں کو دوستوں اور رشتے داروں سے رابطے، بک مارکنگ سائٹس انٹرنیٹ پر موجود مختلف ویب سایٹس کے لنکس مینج اور محفوظ کرنے، سوشل نیوز سائٹس ہر جگہ اور قسم کی خبروں سے آگاہی اور اس پر اپنی رائے دینے کی، میڈیا شیئرنگ سائٹس تصاویر، ویڈیوز اور کومنٹس دوسروں کے ساتھ شیر کرنے، اور فورمز و بلاگز لوگوں کو اپنی سوچ اور رائے تحریروں کی شکل میں دوسروں تک پہنچانے کی سہولیات فراہم کرتیں ہے -




لیکن ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریبا دو ملین سے زائد افراد انٹرنیٹ کی سہولت رکھتے ہیں جن میں کثیر تعداد نوجوان نسل کی ہے ، جو زیادہ تر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اپنا قیمتی وقت صرف کرتی ہے - اور دنیا میں تقریبا چورانوے فیصد نوجوان  فیس بک کا  استعمال محض اپنے ارد گرد کے لوگوں کے بارے میں  ، کہ وہ  کیسا محسوس کر رہیں ہیں، کس کے ساتھ ہیں  اور کیا کر رہیں ہیں وغیرہ جاننے میں اپنا وقت گنوا دیتے ہیں-




یونیورسٹی آف میری لینڈ میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق سوشل میڈیا ایک  نشہ بن چکا ہے جس کے  نہ ملنے سے  نوجوان ڈیپریشن اور پریشانی کی جکڑ میں آ جاتے ہیں جس سے ان کی صحت ، تعلیم اور پریکٹیکل زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہیں ہیں-




یہ نشہ منشیات کے نشے کی مانند انہیں تنہائی کا عادی بنا رہا ہے جس سے وہ اپنے آس پاس  موجود لوگوں سے بےخبر رہتے ہیں اور یہ تنہائی انھیں مختلف برائیوں کی جانب راغب کر رہی ہے-



جیسے سوشل نیٹورکنگ سائٹس کے ذریعےجرائم پیشہ افراد  لوگوں کے ساتھ دوستی کا ناٹک کر کے انہیں  اغواء کر رہیں ہیں ،سوشل میڈیا پر آن لائن ڈیٹنگ سائٹس کا استعمال اخلاقیات اور کردار کو تباہ کر رہا ہے ، سوشل سائٹس پر انے والےاخلاق سے گرے ہوئے پاپ اپس اور اشتہارات معاشرےمیں  بےراہروی کو فروغ دے رہیں ہیں- چند نفسیاتی  مریض اپنے فتورکے کارن سوشل سائٹس پر موجود تصاویر کا غلط استعمال کر کہ لوگوں کی ذاتی زندگی کو نقصان پہنچا کر ان کے اور  معاشرے کے سکون کو تباہ کر رہیں ہیں-




 اس کے علاوہ سائبر کرائم  میں ملوث افراد لوگوں کے اکاؤنٹس ہیک کر کے ان کے ڈیٹا اور ذاتی معلومات کا غلط استعمال کرتے ہیں- کچھ لوگ محض ٹائم پاس اور تفریح کے لئے ان کاموں میں یہ جانتے ہوے بھی ملوث ہیں کہ اس امر سے نہ صرف وہ لوگوں کو نقصان پہنچا رہیں   ہیں بلکہ اپنی ذات اور قیمتی وقت بھی برباد کر رہیں ہیں-




اس فتور کو ختم کرنے کے لئےتمام  لوگوں کی خاص طور پر نوجوان نسل کی کونسلنگ کی ضرورت ہے اور یہ کام والدین سے بہتر اور کوئی سر انجام نہیں دے سکتا - ہمیں خود اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور سوشل میڈیا کو وقت کی بربادی کا ذمہ دار ٹھرانے کی بجاے اسے سہولت سمجھ کر صحیح طریقے سے اپنانا چاہیے-        

 تحریر:عالیہ حسن
                       

Friday, September 26, 2014









دوست تو دوست ہیں چاہے جیسے بھی ہوں.... بس ان کی 
اقسام ذرا رنگ برنگی ہوتیں ہیں -آج ہم  اپ کو ان کی چند  اقسام سے آشنا کروایں گے

: نمبر ایک 
ہومیوپیتھک دوست ، یہ وہ دوست ہیں جنہیں ہم " جگری دوست " بھی کہتے ہیں  یہ ہومیوپیتھک ادویات کی طرح نسبتاً کم  نقصان دہ ہوتے ہیں - بچپن کے دوست
یہ  دوست غذا کی طرح ہوتے ہیں جن کی دوستی ہمارے لئے ناگزیر ہوتی ہے- جو ہر خوشی اور غم میں ساتھ دیتے ہیں -ہم اپنا ہر مسلہ اور پریشانی ان سے بانٹ لیتے ہیں اور  غلط اقدام پر اکثر یہ ہمارے کان بھی کھینچتے ہیں-اگر کسی وجہ سے  ناراض ہو بھی جائیں تو مشکل وقت میں ڈھیٹوں کی طرح ہمارا ساتھ دے کر ہمیں شرمندہ کرتے ہیں

:نمبر دو 
 مطلبی دوست ، یہ دوستوں کی وہ قسم ہے جو دوستوں کے مصیبت میں کام آنے والے محاورے کو غلط ثابت کرتے رہتے ہیں - یہ صرف  اس وقت اپنی  دوستی جتاتے ہیں جب انہیں ہم سے  کوئی کام نکلوانا ہو  اور جب ہمیں ان کی ضررورت ہو تو یہ بھوتوں کی طرح یا پھر الیکشن کے بعد جیت جانےوالے  سیاست دانوں کی طرح غائب ہو جاتے   ہیں- یہ  بےحس   انسان ہوتے ہیں جنھیں صرف اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے اور دوسروں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی  - آجکل زیادہ تر یہی قسم دیکھنے کو ملتی ہے 

:نمبر تین
مفت کے دوست ، یہ لوگ بیماری کی طرح ہوتے ہیں جن سے  اپ دور بھاگتے ہیں - ان کی مثال  کمبل کی سی ہے  جسے اپ تو  چھوڑنا چاہیں پر وہ  اپ کو نہیں چھوڑتا "خیر ایسے دوست طالب علمی کے زمانے میں زیادہ  ٹکرتے ہیں جب  معلوم ہو کہ امتحانات قریب ہیں اور انھیں اپ کی ذہانت کی اشد ضرورت ہو - اس وقت ملتے تو ایسے ہیں جیسے دو سگے بھائی کنبھ کے میلے میں گم ہونے کے عرصے بعد مل رہے ہوں

:نمبر چار 
ٹائم پاس دوست ، ان میں اور مطلبی دوستوں میں بس انیس بیس کا فرق ہوتا ہے -دراصل یہ وہ لوگ ہیں جن کا کوئی مشغلہ نہیں ہوتا  اور بس   اپنا وقت  گزارنے کے لئے یہ اپ کا وقت ضایع کرتے ہیں -آجکل سوشل میڈیا پر اسی قسم کی دوستی کا رواج پایا جاتا ہے 

:نمبر پانچ 
کمینے دوست ، یہ وہ دوست ہیں جو کوئی بھی الٹا کام اکیلے نہیں کرتے اور نہ ہی اپ کو اکیلا کرنے دیتے ہیں   ........... یہ کسی حد تک جگری دوستوں کی مانند ہوتے ہیں
فرق اتنا ہے کہ وہ غلطی کرنے پر کان کھینچتے ہیں اور یہ ٹانگ- ایسےکمینے دوست اپنی تمام تر کمینگی کے باوجود  بھی  دوا کی مانند ہوتے ہیں ،پریشانی اور تنہائی میں جن کی  بہت ضرورت محسوس ہوتی ہے

:نمبر چھ
شوخے دوست ، یہ وہ دوست ہیں جو کسی بھی موقعہ پر شوخی بگاڑنے سے باز نہیں اتے - دراصل ان کا مقصد دوسروں کی توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے - کسی بھی محفل یا بھیڑ میں ایسی اوچھی حرکت کریں گے کہ لوگ خودبخود ان کی طرف متوجہ ہوجایں اور اس وقت اپ ان سے دور رہ کر لاتعلقی کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ اپ بھی شوخے نہ کہلاے جائیں 

:نمبر سات 
شریر دوست ، یہ وہ دوست ہیں جن کی ہڈی کو تب تک چین نہیں اتا جب تک وہ کسی سے کوئی پنگا نہ لے  لیں اور اکثر کسی نہ کسی کے ساتھ اپنی اس عادت بد کی وجہ سے یہ جھگڑ کر  اپنے ساتھ ساتھ اپ کو بھی شرمندہ کرتے ہیں 

:نمبر اٹھ
عاشق دوست.....خود کو غالب اور جون ایلیا  سمجھنے والے  دل پھینک دوست جو  آے دن کسی نہ کسی  کی محبت میں گرفتار ہوئے پھرتے ہیں  ....اور دل توڑے جانے پر یہ مظلوم عاشقوں کا حلیہ بناے پھرتا ہے -  بات بات پر اشعار کی ٹانگ توڑنا ان کی سب سے بڑی نشانی ہے 

:نمبر نو 
امیر دوست ، دوستوں کی تمام اقسام میں اس دوست کو بڑی اہمیت حاصل ہے ...وجہ نام سے ہی ظاہر ہے - اس دوست کا بڑا رعب  ہوتا ہے ، اگر یہ دوست احساس برتری کا شکار دوست ہو تو اس کے لئے دوسروں کی بات ماننا اس کی امارت کے خلاف  ہوتا ہے- ان کا یہ مزاج دوسرے دوستوں کو احساس کمتری کا شکار کر دیتا ہے...خود کو طاقتور سمجھنے والے یہ دوست اکثر دوسروں کی نظروں میں احمق ہوتے ہیں         
دوستوں کی بیان کردہ اقسام میں، اپ خود کو کس قسم کا 
  دوست سمجھتے ہیں؟

   تحریر: عالیہ حسن  

Monday, September 22, 2014






ہر انسان کی زندگی میں ایک نشہ ضرور موجود ہوتا ہے   
جسے پورا کرنے کے لیے وہ جی جان لگاتا ہے، دن رات ایک کردیتا  ہےاور  ہر حربہ استعمال کرتا ہے
    
  یہ نشہ اپنا مقصد پورا کرنے کا نشہ ہے ، جیسے کچھ لوگوں کو دولت، طاقت، شہرت، آزادی، اپنی  ذات منوانے کا نشہ ہوتا 
ہے 

مقصد جو بھی ہو یہ نشہ وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے ، بس اس نشے کی نوعیت ہر فرد کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے

بعض اوقات اپنے مقصد کے حصول میں دیری یا اس کے  پورا نہ ہونے کا احساس انسان کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے اور اس مایوسی اور پریشانی سے بچنے اور بھولانے  کے لئےکچھ کم عقل اور بزدل لوگ منشیات کے نشے میں گم ہو جاتے ہیں، ان کا ماننا ہے  نشہ ہر غم اور دکھ بھولا دیتا ہے

کیونکہ 
منشیات کا استعمال انسان کی  سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو دھندلا کر دیتا ہے اور وقت گزرتے اس نشے میں انسان اتنا گم ہوجاتا ہے کہ اس کی ہر صلاحیت دم توڑ دیتی ہے-نشہ  وہ بری عادت ہے جو اخلاق اور جوانی  کو تباہ کر دیتی ہے

یہ برائی ہمارے معاشرےکو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے 
اس عادت کا آغاز اکثر سگریٹ نوشی اور مختلف چیزوں میں تمباکو کے استعمال  یا پھر نشہ کرنے والوں کی صحبت میں بیٹھ کر ہوتا ہے ، جہاں انھیں نشہ کی دعوت دی جاتی ہے

پاؤڈر ، ہیروین، کوکین، آفوین، مریجوآنا، چرس،  گانجھا، حشیش یہ تمام غیر قانونی نشہ آور چیزیں سمگلنگ کے ذریعے ملک میں  داخل ہو کر ہماری نسلوں کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہیں اور یہ زہر ان کو دھیرے دھیرے موت کے قریب سے قریب تر کر دیتا ہے

بعض لوگ طبی دواؤں کو محض نشے کے لئے استعمال کرتے ہیں جیسے کھانسی کا شربت، نیند، درد  اور ڈیپرشن کم کرنے کی گولیاں ، میتھیلیٹڈ سپرٹ، یہاں تک کہ سامان جوڑنے والی گوند کا بھی نشہ کیا جاتا ہے

 لوگ اس کینسر کو سماج میں پھیلانے کے نت نئے طریقے کو متعارف کروا رہیں ہیں...............
 انڈیا کے شہرحیدرآباد میں ایک اور نشہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہےنئی نسل اپنی زبان کو سانپ سے ڈسواتی ہے اور اس کا  نشہ ٣ دن تک رہتا ہے ...ان ٣ دنوں میں وہ گویا الگ ہی دنیا میں سکونت اختیار کر لیتے ہیں

اسی طرح شیشہ جسے تفریح کے نام پہ سماجی قبولیت مل رہی  ہے ، نشے کی طرف بڑھایا گیا پہلا قدم ہے
اس کے ایک گھنٹہ کا استعمال   سگریٹ پینے کے برابر ہے ١٠٠ اس کا استعمال نہ صرف لڑکوں بلکہ  لڑکیوں میں بھی پایا جاتا ہے اور اسے سٹیٹس سیمبل کا نام دے کر نظر انداز کیا جا رہا ہے

سٹیٹس سیمبل کی بات کریں تو اس زہر کو پھیلانے میں ہمارا میڈیا بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے - فیشن انڈسٹری میں موجود فنکاروں کی فٹنس کا راز مختلف منشیات کے مختص استعمال کو بتایا جانا ، فیشن فوبک نوجوان خاص طور پر لڑکیوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے- فلموں اور ڈراموں میں اداکاراوں کے سگریٹ ، شراب اور مختلف نشہ اور چیزوں کا استعمال دکھانا ان کے چاہنے والوں ، جو ان کے ہر انداز کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں پر برا اثر ڈالتے ہیں

پاکستان میں نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والوں کی تعداد جن میں  خصوصا نوجوان شامل ہیں تقریبا  ٧٠ لاکھ سے زائد ہے 
جن میں 
     ١٥- ٦٤ عمر کے افراد شامل ہیں اور سالانہ اضافے کے  اعتبار سے صوبہ خیبرپختونخواہ سرفہرست ہے، جہاں ٢٠ فیصد شرح خواتین کی ہے  
           
نشے میں مبتلا یہ شرمناک اور عبرتناک  تعداد ہمارے ملک     کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے
 یہ لعنت لوگوں کو ان کی دولت سے محروم کر دیتی ہے اور پھر اخر میں وہ اپنے تمام اثاثے بیچ کر ، ادھار لے کر، چوری اور ہیراپھیری کر کے ، بھیک مانگ کر اپنی اس لت کو پورا کرتے ہیں

زیادہ تر
 افراد زندگی کی آخری سانسیں فٹ پاتھوں پر لاوارثوں کی طرح گزار دیتے ہیں
  
ہمیں چاہیے کہ ہم سب متحد ہو کر اس  کا ڈٹ کر مقابلہ کریں -والدین اپنے بچوں پر توجہ دیں، ان کے مسائل سے اگاہ رہیں، وہ کن لوگوں کی صحبت میں بیٹھتے ہیں اس کی خبر رکھیں، ان کہ ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں

 حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں منشیات کی فروخت اور سمگلنگ کو  ختم کرے ، منشیات کے عادی افراد کے لئے موجود اداروں کی تعداد بڑھاے اور ان میں موجود   سہولیات کو بہتر بنایں صرف اس طریقے سے ہم نشے کی اس لعنت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں 
  
 تحریر: عالیہ  حسن