Saturday, December 6, 2014








موجوده حالات و واقعات دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے 
کہ اب ہم کسی صورت بہتری حاصل نہیں کر سکتے – حالات بد سے بدتر ہوتے نظر آ رہے ہیں – انسان میں دنیاوی لگاؤ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب وہ اپنی خواھشات اور مقاصد کے حصول میں اخلاقیات کی کسی حد کو پار کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتا – یہاں بھینس کی ملکیت کو نظر انداز کر کے ملکیت لاٹھی پر زور دیا جاتا ہے-  امیر امیرتر  اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے – مہنگائی کا جن غریب کے گھر میں اس طرح بسیرا کر چکا ہے کہ اب کوئی سیاسی بابا اپنے بےاثر نعروں کے تعویز سے اسے نکال نہیں سکتا-   انسان کچھ یوں  بے حس ہو چکا ہے کے اسے  کسی کی تکلیف، خوشی و رنج سے کوئی سروکار نہیں بس اپنا مقصد 
-پورا ہونا چایئے 

 موجوده صورتحال یہ ہے کہ تعریف کرپشن میں ردوبدل کر کے لوگوں نے اسے ہر اس پیمانے پر اختیار کر لیا  ہے جس میں وہ اپنا سامان تولتے ہیں –انکے لئے کرپشن وہی ہے جو کوئی دوسرا کرتا ہے اور ان کی کی گئی دھاندلی و زیادتی انکا حق ہے – اب اگر اپنے حق کے حصول سے  کسی اور کا نقصان ہوتا ہے تو ان کی بلا سے – تحائف کا ٹیگ لگا کر رشوت دینا اور لینا معمول بن چکا ہے – ایسا کوئی شعبہ نہیں جہاں رشوت و سفارش  نہ چلتی ہو – چپڑاسی سے لے کر اعلی -افسران تک تمام ان تحائف میں چھپے خلوص کے زیراثر ہیں-

سیاست ہو یا لاء اینڈ آڈر ، صحت ہو یا تعلیم ایسا کوئی محکمہ نہیں جہاں کوئی کسی کے ساتھ ظلم  نہ کرتا ہو، اس کا حق نہ چھینتا ہو – لوگوں نے پیسہ، پاور، اقتدار و شہرت ہی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے – اور کامیاب و خوشحال زندگی کے تمام قوائد بھلا کر وہ خود کو کامیاب بنانے اور ایک خوشحال زندگی جینے کی امید میں مصروف ہیں –

نوکری کے لئے انٹرویو میں پاس ہونا ہو یا اعلی عہدے   ٹرانسفر کروانا ہو ، کالج و یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہو یا امتحان میں پاس ہونا ہو، قطار میں کھڑے ہو کر انتظار سے بچنا ہو یا ٹریفک قوانین توڑنے کے جرمانے سے ، رشوت سہل راستہ ہے –

آج محکمہ صحت میں لوگوں کی جان بچانے کی بجائے پیسہ وصول کرنا مقصد بن چکا ہے ، جس کے تحت حکومت کی طرف سے غریبوں کو دی گئی مفت ادوایات بھی فروخت کی جا رہیں ہیں، یہاں تک کہ لوگوں کی جانب سے عطیہ کی جانے والی مشینری بھی آگے بیچ دے جاتی ہے - اعلی عہدوں پر فائز نااہل ڈاکٹرز کی بڑھتی  تعداد اور جعلی ادوایات کی بڑھتی فروخت مریضوں کے لئے خطرہ بن چکی ہے اور اس غفلت کے باعث آئے روز ہمیں کئی ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے – اہل وعیال کے احتجاج کرنے پر افسران نوٹس تو لیتے ہیں لیکن ریت کے مطابق زمہ داران کے خلاف موجود فائلز پیسوں کے وزن تلے دب جاتیں ہیں- 

تعلیمی صورتحال یہ ہے کے حکومت کی جانب سے طلباء طالبات کو دی جانے والی مفت درسی کتب ردی کے بھاؤ بیچ دی جاتیں ہیں – میریٹ پر پورا نہ ہونے کے باوجود رشوت لے کر داخلہ دیا جاتا ہے اور اہل طلباء و طالبات کا حق چھین لیا جاتا ہے – امتحانات میں رشوت کے ذریعے نمبر بڑھوا ئے جاتے ہیں یہاں تک کہ امتحان ہی امیدوار کا کوئی عزیز دیتا ہے اور اگر شازو ناظر کوئی پکڑا ہی جائے تو معاملہ افسران تک پہنچنے سے پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے – سرکاری تعلیمی اداروں کے  نصاب میں سال ہا سال کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی جس سے نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کا فرق بڑھتا چلا جا رہا ہے یہاں تک کہ حکومت کی جانب سے ذہین طلبہ کو دی جانے والی اسکالر شپ تک ہڑپ لی جاتی ہے -  

لاء اینڈ آرڈر کے محکمہ میں بدعنوانی عروج پر ہے – یہاں قانون محض کمزور کے لئے بنتا اور لاگو ہوتا ہے – طاقت ور اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے – اگر کمزور کوئی قانون توڑے تو اس پر جرمانہ اور سزا عائد کیا جاتا ہے اور اگر امیر ایسا کچھ کرے تو سفارش اور طاقت کے بل پر اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا – قوانین موجود ہیں لیکن بدعنوانی اور گورننس کے نقائص کے باعث ان پر عمل نہیں کیا جاتا ہے –دھاندلی، رشوت، قتل و ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث افراد بڑی شان سے کھلے عام گھومتے ہیں جن پر کیس تو درج ہوتا ہے لیکن انکوائری کے لئے ان کی فائلز نوٹوں کے ملبے تلے دبا دی جاتیں ہیں جو تاحال وہاں سے نکل نہیں سکتیں –

غرض ہر محکمہ اقربا  پروری، بدعنوانی ، ڈسپلن کے فقدان اور غفلت کا شکار ہے – یہ تمام محکمے ہی ملک کی بنیاد مظبوط بناتے ہیں اگر محکموں کو بدعنوانی اور غفلت سے چھلنی کر دیا جائے تو ملک کی ترقی و  خوشحالی کا سوچنا فقد ہوائی قلعے تعمیر کرنے کی مانند ہو گا- اس تمام صورت حال سے اور بہت سے مسائل جانم لے رہے ہیں جن میں سرفہرست مہنگائی، بیروزگاری اور تعلیم کا فقدان ہے –

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تمام صورت حال کو بیرونی ہاتھ کا شاخسانہ قرار دے کر خود کو بےبس اور معصوم ظاہر کرتے ہیں جو کہ کچھ نہ کرنے کی طبیعت کو ظاہر کرتا ہے – ہم کچھ کر نہیں سکتے یا کرنا نہیں چاہتے؟ ہم چاہیں تو ان تمام محکمات میں موجود نقائص کو ڈسپلن رائج کر کے ، اقربا پروری سے گریز کر کے ، بدعنوانی جڑ سے ختم کر کے ، قوانین کو سب پر برابر کا لاگو کر کے ، ٹیکس کی ادائیگی سے، غیر جانبداریت اپنا کر اور ہر کام ایمانداری سے کر کے ختم کر سکتے ہیں – جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں اور جو کرنا چاہتے ہیں ان کو کرنے نہیں دیا جاتا – ہمیں خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے.....جو ہمارے بس میں ہے -
تبدیلی اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے !


تحریر : عالیہ حسن  

 

Wednesday, November 5, 2014







اکثر گلی محلے میں لڑائی جھگڑے کے اختتام پر ایک جملہ گونجتا ہے جسے سن کر تمام حاضرین و ناظرین سیخ پا ہو جاتے ہیں

"سارے ہی تماشبین ہیں "

یہ جملہ اس ہجوم کو منتشر کر نے میں مدد دیتا ہے جو تماشا لگانے والوں کی طرف لوگوں کے  مثبت رویے کا نتیجہ ہوتا ہے

!!!!اب تماشا لگے گا تو لوگ تو دیکھیں گے

پرانے وقتوں کے مداری گلی کوچوں میں لوگوں کو محظوز کرنے کی خاطر تماشا لگا کر پیسے وصول کیا کرتے تھے 

          ترقی فرد اور  وقت کے

 ساتھ ساتھ اس عمل میں کچھ تبدیلی آئی اور آج پیسے    والے اپنی ذات کو محظوظ کرنے کے لئے عام لوگوں سے تماشا کرواتے ہیں اور بدلے میں انھیں سے قیمت بھی وصول کرتے ہیں 

کھیل وہی ہے بس اصول اور کردار بدل دیے گئے ہیں

سب سے واضح اور قریب کی مثال 

........ "پاکستان" ہمارا اپنا ملک

  آج مختلف جدید  مداریوں کے ہاتھ تماشا بن چکا ہے اور ساری دنیا تماشبین- کوئی مداری کو قرضوں کی صورت میں داد دیتا ہے تو کوئی مختلف بندشیں لگا کر تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے- اور عوام کی مثال ایسی ڈھولک کی سی ہے جسے ہر ایرا غیرا دونوں طرف سے بجا رہا ہے 

بہرحال کھیل زوروشور سے جاری و ساری ہے بس  حیرت کی بات یہ ہے کہ مداری اور تماشبن دونوں ایک ہی ہیں 

مداریوں کی مختلف اقسام ہیں جیسے کچھ مداری تھوڑے رحم دل اور شرمیلے ہوتے ہیں  اس لئے وہ اپنا یہ رول پردے کے پیچھے سے بخوبی سرانجام دیتے ہیں،ہچکچاتے ہیں لیکن پیچھے نہیں ہٹتے- اخر ان کی بھی روزی روٹی کا سوال ہے ،عوام کا سوچنے والے تو اور بہت ہیں لیکن اپنا خیال تو خود رکھنا پڑتا ہے 

باقی مداری خوب دلیر اور جانباز ہوتے ہیں جنھیں اگر داد حاصل کرنے کے لئے کسی کی جان کی بازی بھی لگانی پڑے تو ڈرتے نہیں  بس کر گزرتے ہیں 

ہمارا ماضی و حال اس جانبازی کے قصوں سے بھرا ہوا ہے - آے دن ہمارے ہاں ایسے واقعات   رونما ہوتے ہیں لیکن محض خاموشی کے ہم کچھ نہیں کرتے شاید ہم کشمکش کا شکار ہیں کہ آیا ہم تماشبین ہیں یا وہ ڈگڈگی اور ڈھولک جسے بجا کر تماشا کیا جا رہا ہے یا پھر  یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ  ہمارے بنا یہ کیھل چل نہیں سکتا         

 ڈاکٹر، رائیٹر، سیاستدان یہاں تک کہ علما بھی  آج  مداری کا کردار ادا کر رہیں ہیں جو محض اپنے مفاد پر عوام کے مفاد کو ناکارہ نوجوانوں کا  ایسا ہجوم تصور کرتے ہیں جو جب چاہیں گلی محلے میں لڑائی کے لئے جمع ہو جاتا ہے 

ایک جعلی ڈاکٹر پیسے

 کی خاطر مہنگی دوائی اور علاج کی ڈگڈگی بجاتا ہے اور مریض اس بات سے انجان اسے اپنی بھلائی اور سکوں سمجھ کر پیسے لٹا کر تماشا بنتا ہے

ایک رائیٹر اپنے لفظوں کے کھیل سے جیسے اور جب چاہے لوگوں کو چلاتا ہے

افسوس کی بات تو  یہ ہے کہ آج کے علما بھی مداریوں کی ڈھولک بن چکے ہیں جو محض پیسے اور شہرت کی خاطر جھوٹے فتوے دے کر  لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں

اور ہمارے سیاست دان اس بات سے انجان کہ وہ خود کسی کی ڈور میں بندھے ایک جانور کی مانند تماشا بنے ہیں  روز انصاف ، ترقی اور خوشالی کی ڈگڈگی بجا کر لوگوں کو اکھٹا کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے اپنا ہی تماشا بناتے ہیں - ان لوگوں نے  سیاست کو ہی تماشا بنا ڈالا ہے جس کا مقصد ملک یا عوام کا مفاد نہیں بلکہ صرف پیسہ، پاور اور انا کی تسکین ہے

جدید دور اور فاصلوں کی دوری کو مدنظر رکھتے ہویے یہ سیاست دان  اسسٹنٹس کے طور پر کام کر رہیں ہیں جو ان کے بتاے ہوے اشاروں اور اصولوں  پر ہجوم اکھٹا کر کے قیمت کی صورت میں  داد وصول کرتے ہیں-دولت کی ہوس نے انہیں اندھا کر دیا ہے اور عوام کی جان و مال ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی

اب اس صورت حال کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈھولک خود پکار اٹھے کہ    

"سارے ہی تماشبین ہیں "


تحریر:عالیہ حسن 

 

Wednesday, October 29, 2014









گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرتی دنیا میں اہم کردار ادا کرنے والا سوشل میڈیا آج مفکرین کی نظر میں ایک سوال کی صورت اختیار کر چکا ہے جسکی بڑی وجہ زیادہ تر نوجوانون کا اپنا قیمتی وقت سوشل نیٹورکنگ سائٹس پر گزارنا  ہے - 



اس سوال کا جواب اس کے استعمال پر منحصر کرتا ہے کے آیا مثبت استعمال کر کے اس کو سہولت کے طور پر بروے کار لایا جا رہا ہے یا منفی استعمال سے خود کے اور معاشرے کے لئے زحمت بنا کر وقت کو برباد کیا جا رہا ہے-




انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں سوشل میڈیا دن بدن لوگوں میں مقبول ہو رہا ہے جسکی بڑی وجہ اسکی جانب سے دے گیے ایسے فیچرز ہیں جو  زندگی کے ہر کام کو آسان سے آسان تر کرتے جا رہیں ہیں- آن لائن مارکیٹنگ نے خریدو فروخت کو سہل بنا دیا ہے، آن لائن جابز، بینکنگ، ووٹنگ، ایجوکیشن غرض ہر ہی پہلو اور شعبۂ کو سوشل میڈیا نے گھیر لیا ہے-    




جیسے سوشل میڈیا کی یہ  مختلف اقسام .... سوشل نیٹورکنگ سائٹس لوگوں کو دوستوں اور رشتے داروں سے رابطے، بک مارکنگ سائٹس انٹرنیٹ پر موجود مختلف ویب سایٹس کے لنکس مینج اور محفوظ کرنے، سوشل نیوز سائٹس ہر جگہ اور قسم کی خبروں سے آگاہی اور اس پر اپنی رائے دینے کی، میڈیا شیئرنگ سائٹس تصاویر، ویڈیوز اور کومنٹس دوسروں کے ساتھ شیر کرنے، اور فورمز و بلاگز لوگوں کو اپنی سوچ اور رائے تحریروں کی شکل میں دوسروں تک پہنچانے کی سہولیات فراہم کرتیں ہے -




لیکن ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریبا دو ملین سے زائد افراد انٹرنیٹ کی سہولت رکھتے ہیں جن میں کثیر تعداد نوجوان نسل کی ہے ، جو زیادہ تر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اپنا قیمتی وقت صرف کرتی ہے - اور دنیا میں تقریبا چورانوے فیصد نوجوان  فیس بک کا  استعمال محض اپنے ارد گرد کے لوگوں کے بارے میں  ، کہ وہ  کیسا محسوس کر رہیں ہیں، کس کے ساتھ ہیں  اور کیا کر رہیں ہیں وغیرہ جاننے میں اپنا وقت گنوا دیتے ہیں-




یونیورسٹی آف میری لینڈ میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق سوشل میڈیا ایک  نشہ بن چکا ہے جس کے  نہ ملنے سے  نوجوان ڈیپریشن اور پریشانی کی جکڑ میں آ جاتے ہیں جس سے ان کی صحت ، تعلیم اور پریکٹیکل زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہیں ہیں-




یہ نشہ منشیات کے نشے کی مانند انہیں تنہائی کا عادی بنا رہا ہے جس سے وہ اپنے آس پاس  موجود لوگوں سے بےخبر رہتے ہیں اور یہ تنہائی انھیں مختلف برائیوں کی جانب راغب کر رہی ہے-



جیسے سوشل نیٹورکنگ سائٹس کے ذریعےجرائم پیشہ افراد  لوگوں کے ساتھ دوستی کا ناٹک کر کے انہیں  اغواء کر رہیں ہیں ،سوشل میڈیا پر آن لائن ڈیٹنگ سائٹس کا استعمال اخلاقیات اور کردار کو تباہ کر رہا ہے ، سوشل سائٹس پر انے والےاخلاق سے گرے ہوئے پاپ اپس اور اشتہارات معاشرےمیں  بےراہروی کو فروغ دے رہیں ہیں- چند نفسیاتی  مریض اپنے فتورکے کارن سوشل سائٹس پر موجود تصاویر کا غلط استعمال کر کہ لوگوں کی ذاتی زندگی کو نقصان پہنچا کر ان کے اور  معاشرے کے سکون کو تباہ کر رہیں ہیں-




 اس کے علاوہ سائبر کرائم  میں ملوث افراد لوگوں کے اکاؤنٹس ہیک کر کے ان کے ڈیٹا اور ذاتی معلومات کا غلط استعمال کرتے ہیں- کچھ لوگ محض ٹائم پاس اور تفریح کے لئے ان کاموں میں یہ جانتے ہوے بھی ملوث ہیں کہ اس امر سے نہ صرف وہ لوگوں کو نقصان پہنچا رہیں   ہیں بلکہ اپنی ذات اور قیمتی وقت بھی برباد کر رہیں ہیں-




اس فتور کو ختم کرنے کے لئےتمام  لوگوں کی خاص طور پر نوجوان نسل کی کونسلنگ کی ضرورت ہے اور یہ کام والدین سے بہتر اور کوئی سر انجام نہیں دے سکتا - ہمیں خود اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور سوشل میڈیا کو وقت کی بربادی کا ذمہ دار ٹھرانے کی بجاے اسے سہولت سمجھ کر صحیح طریقے سے اپنانا چاہیے-        

 تحریر:عالیہ حسن
                       

Friday, September 26, 2014









دوست تو دوست ہیں چاہے جیسے بھی ہوں.... بس ان کی 
اقسام ذرا رنگ برنگی ہوتیں ہیں -آج ہم  اپ کو ان کی چند  اقسام سے آشنا کروایں گے

: نمبر ایک 
ہومیوپیتھک دوست ، یہ وہ دوست ہیں جنہیں ہم " جگری دوست " بھی کہتے ہیں  یہ ہومیوپیتھک ادویات کی طرح نسبتاً کم  نقصان دہ ہوتے ہیں - بچپن کے دوست
یہ  دوست غذا کی طرح ہوتے ہیں جن کی دوستی ہمارے لئے ناگزیر ہوتی ہے- جو ہر خوشی اور غم میں ساتھ دیتے ہیں -ہم اپنا ہر مسلہ اور پریشانی ان سے بانٹ لیتے ہیں اور  غلط اقدام پر اکثر یہ ہمارے کان بھی کھینچتے ہیں-اگر کسی وجہ سے  ناراض ہو بھی جائیں تو مشکل وقت میں ڈھیٹوں کی طرح ہمارا ساتھ دے کر ہمیں شرمندہ کرتے ہیں

:نمبر دو 
 مطلبی دوست ، یہ دوستوں کی وہ قسم ہے جو دوستوں کے مصیبت میں کام آنے والے محاورے کو غلط ثابت کرتے رہتے ہیں - یہ صرف  اس وقت اپنی  دوستی جتاتے ہیں جب انہیں ہم سے  کوئی کام نکلوانا ہو  اور جب ہمیں ان کی ضررورت ہو تو یہ بھوتوں کی طرح یا پھر الیکشن کے بعد جیت جانےوالے  سیاست دانوں کی طرح غائب ہو جاتے   ہیں- یہ  بےحس   انسان ہوتے ہیں جنھیں صرف اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے اور دوسروں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی  - آجکل زیادہ تر یہی قسم دیکھنے کو ملتی ہے 

:نمبر تین
مفت کے دوست ، یہ لوگ بیماری کی طرح ہوتے ہیں جن سے  اپ دور بھاگتے ہیں - ان کی مثال  کمبل کی سی ہے  جسے اپ تو  چھوڑنا چاہیں پر وہ  اپ کو نہیں چھوڑتا "خیر ایسے دوست طالب علمی کے زمانے میں زیادہ  ٹکرتے ہیں جب  معلوم ہو کہ امتحانات قریب ہیں اور انھیں اپ کی ذہانت کی اشد ضرورت ہو - اس وقت ملتے تو ایسے ہیں جیسے دو سگے بھائی کنبھ کے میلے میں گم ہونے کے عرصے بعد مل رہے ہوں

:نمبر چار 
ٹائم پاس دوست ، ان میں اور مطلبی دوستوں میں بس انیس بیس کا فرق ہوتا ہے -دراصل یہ وہ لوگ ہیں جن کا کوئی مشغلہ نہیں ہوتا  اور بس   اپنا وقت  گزارنے کے لئے یہ اپ کا وقت ضایع کرتے ہیں -آجکل سوشل میڈیا پر اسی قسم کی دوستی کا رواج پایا جاتا ہے 

:نمبر پانچ 
کمینے دوست ، یہ وہ دوست ہیں جو کوئی بھی الٹا کام اکیلے نہیں کرتے اور نہ ہی اپ کو اکیلا کرنے دیتے ہیں   ........... یہ کسی حد تک جگری دوستوں کی مانند ہوتے ہیں
فرق اتنا ہے کہ وہ غلطی کرنے پر کان کھینچتے ہیں اور یہ ٹانگ- ایسےکمینے دوست اپنی تمام تر کمینگی کے باوجود  بھی  دوا کی مانند ہوتے ہیں ،پریشانی اور تنہائی میں جن کی  بہت ضرورت محسوس ہوتی ہے

:نمبر چھ
شوخے دوست ، یہ وہ دوست ہیں جو کسی بھی موقعہ پر شوخی بگاڑنے سے باز نہیں اتے - دراصل ان کا مقصد دوسروں کی توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے - کسی بھی محفل یا بھیڑ میں ایسی اوچھی حرکت کریں گے کہ لوگ خودبخود ان کی طرف متوجہ ہوجایں اور اس وقت اپ ان سے دور رہ کر لاتعلقی کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ اپ بھی شوخے نہ کہلاے جائیں 

:نمبر سات 
شریر دوست ، یہ وہ دوست ہیں جن کی ہڈی کو تب تک چین نہیں اتا جب تک وہ کسی سے کوئی پنگا نہ لے  لیں اور اکثر کسی نہ کسی کے ساتھ اپنی اس عادت بد کی وجہ سے یہ جھگڑ کر  اپنے ساتھ ساتھ اپ کو بھی شرمندہ کرتے ہیں 

:نمبر اٹھ
عاشق دوست.....خود کو غالب اور جون ایلیا  سمجھنے والے  دل پھینک دوست جو  آے دن کسی نہ کسی  کی محبت میں گرفتار ہوئے پھرتے ہیں  ....اور دل توڑے جانے پر یہ مظلوم عاشقوں کا حلیہ بناے پھرتا ہے -  بات بات پر اشعار کی ٹانگ توڑنا ان کی سب سے بڑی نشانی ہے 

:نمبر نو 
امیر دوست ، دوستوں کی تمام اقسام میں اس دوست کو بڑی اہمیت حاصل ہے ...وجہ نام سے ہی ظاہر ہے - اس دوست کا بڑا رعب  ہوتا ہے ، اگر یہ دوست احساس برتری کا شکار دوست ہو تو اس کے لئے دوسروں کی بات ماننا اس کی امارت کے خلاف  ہوتا ہے- ان کا یہ مزاج دوسرے دوستوں کو احساس کمتری کا شکار کر دیتا ہے...خود کو طاقتور سمجھنے والے یہ دوست اکثر دوسروں کی نظروں میں احمق ہوتے ہیں         
دوستوں کی بیان کردہ اقسام میں، اپ خود کو کس قسم کا 
  دوست سمجھتے ہیں؟

   تحریر: عالیہ حسن  

Monday, September 22, 2014






ہر انسان کی زندگی میں ایک نشہ ضرور موجود ہوتا ہے   
جسے پورا کرنے کے لیے وہ جی جان لگاتا ہے، دن رات ایک کردیتا  ہےاور  ہر حربہ استعمال کرتا ہے
    
  یہ نشہ اپنا مقصد پورا کرنے کا نشہ ہے ، جیسے کچھ لوگوں کو دولت، طاقت، شہرت، آزادی، اپنی  ذات منوانے کا نشہ ہوتا 
ہے 

مقصد جو بھی ہو یہ نشہ وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے ، بس اس نشے کی نوعیت ہر فرد کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے

بعض اوقات اپنے مقصد کے حصول میں دیری یا اس کے  پورا نہ ہونے کا احساس انسان کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے اور اس مایوسی اور پریشانی سے بچنے اور بھولانے  کے لئےکچھ کم عقل اور بزدل لوگ منشیات کے نشے میں گم ہو جاتے ہیں، ان کا ماننا ہے  نشہ ہر غم اور دکھ بھولا دیتا ہے

کیونکہ 
منشیات کا استعمال انسان کی  سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو دھندلا کر دیتا ہے اور وقت گزرتے اس نشے میں انسان اتنا گم ہوجاتا ہے کہ اس کی ہر صلاحیت دم توڑ دیتی ہے-نشہ  وہ بری عادت ہے جو اخلاق اور جوانی  کو تباہ کر دیتی ہے

یہ برائی ہمارے معاشرےکو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے 
اس عادت کا آغاز اکثر سگریٹ نوشی اور مختلف چیزوں میں تمباکو کے استعمال  یا پھر نشہ کرنے والوں کی صحبت میں بیٹھ کر ہوتا ہے ، جہاں انھیں نشہ کی دعوت دی جاتی ہے

پاؤڈر ، ہیروین، کوکین، آفوین، مریجوآنا، چرس،  گانجھا، حشیش یہ تمام غیر قانونی نشہ آور چیزیں سمگلنگ کے ذریعے ملک میں  داخل ہو کر ہماری نسلوں کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہیں اور یہ زہر ان کو دھیرے دھیرے موت کے قریب سے قریب تر کر دیتا ہے

بعض لوگ طبی دواؤں کو محض نشے کے لئے استعمال کرتے ہیں جیسے کھانسی کا شربت، نیند، درد  اور ڈیپرشن کم کرنے کی گولیاں ، میتھیلیٹڈ سپرٹ، یہاں تک کہ سامان جوڑنے والی گوند کا بھی نشہ کیا جاتا ہے

 لوگ اس کینسر کو سماج میں پھیلانے کے نت نئے طریقے کو متعارف کروا رہیں ہیں...............
 انڈیا کے شہرحیدرآباد میں ایک اور نشہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہےنئی نسل اپنی زبان کو سانپ سے ڈسواتی ہے اور اس کا  نشہ ٣ دن تک رہتا ہے ...ان ٣ دنوں میں وہ گویا الگ ہی دنیا میں سکونت اختیار کر لیتے ہیں

اسی طرح شیشہ جسے تفریح کے نام پہ سماجی قبولیت مل رہی  ہے ، نشے کی طرف بڑھایا گیا پہلا قدم ہے
اس کے ایک گھنٹہ کا استعمال   سگریٹ پینے کے برابر ہے ١٠٠ اس کا استعمال نہ صرف لڑکوں بلکہ  لڑکیوں میں بھی پایا جاتا ہے اور اسے سٹیٹس سیمبل کا نام دے کر نظر انداز کیا جا رہا ہے

سٹیٹس سیمبل کی بات کریں تو اس زہر کو پھیلانے میں ہمارا میڈیا بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے - فیشن انڈسٹری میں موجود فنکاروں کی فٹنس کا راز مختلف منشیات کے مختص استعمال کو بتایا جانا ، فیشن فوبک نوجوان خاص طور پر لڑکیوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے- فلموں اور ڈراموں میں اداکاراوں کے سگریٹ ، شراب اور مختلف نشہ اور چیزوں کا استعمال دکھانا ان کے چاہنے والوں ، جو ان کے ہر انداز کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں پر برا اثر ڈالتے ہیں

پاکستان میں نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والوں کی تعداد جن میں  خصوصا نوجوان شامل ہیں تقریبا  ٧٠ لاکھ سے زائد ہے 
جن میں 
     ١٥- ٦٤ عمر کے افراد شامل ہیں اور سالانہ اضافے کے  اعتبار سے صوبہ خیبرپختونخواہ سرفہرست ہے، جہاں ٢٠ فیصد شرح خواتین کی ہے  
           
نشے میں مبتلا یہ شرمناک اور عبرتناک  تعداد ہمارے ملک     کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے
 یہ لعنت لوگوں کو ان کی دولت سے محروم کر دیتی ہے اور پھر اخر میں وہ اپنے تمام اثاثے بیچ کر ، ادھار لے کر، چوری اور ہیراپھیری کر کے ، بھیک مانگ کر اپنی اس لت کو پورا کرتے ہیں

زیادہ تر
 افراد زندگی کی آخری سانسیں فٹ پاتھوں پر لاوارثوں کی طرح گزار دیتے ہیں
  
ہمیں چاہیے کہ ہم سب متحد ہو کر اس  کا ڈٹ کر مقابلہ کریں -والدین اپنے بچوں پر توجہ دیں، ان کے مسائل سے اگاہ رہیں، وہ کن لوگوں کی صحبت میں بیٹھتے ہیں اس کی خبر رکھیں، ان کہ ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں

 حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں منشیات کی فروخت اور سمگلنگ کو  ختم کرے ، منشیات کے عادی افراد کے لئے موجود اداروں کی تعداد بڑھاے اور ان میں موجود   سہولیات کو بہتر بنایں صرف اس طریقے سے ہم نشے کی اس لعنت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں 
  
 تحریر: عالیہ  حسن



    

Friday, September 12, 2014








فرد کی ترقی ہی معاشرے کی ترقی اور  فلاح کا باعث ہے اور افراد محض اس  وقت تک  ترقی حاصل کرتے ہیں جب تک وہ اپنی اخلاقی اقدار کو ترجیح دیتے رہیں

جوں ہی وہ  ان سی منہ موڑتے ہیں ، وہ معاشرہ پسماندگی کی                  دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے اور تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے 

کیونکہ
فرد معاشرے کی اکائی ہے اور اگر 
    اکائی ہی تباہی کے راستے پر تیز گام کی مانند چل  پڑے تو  معاشرے کو برباد ہونے سے کوئی سیاست دان، ٹیکنالوجی 
یا دانشور نہیں روک سکتا

اکیسویں صدی  اور  جدید دور ..... بظاھر لوگ روزبروز 
ترقی کی راہ پر اگے سے اگے چلے جا رہیں ہیں 
خاص طور پر مغربی  معاشرہ لیکن کیا ضرروری ہے کہ اس درجہ ترقی کے لئے ہم اپنے اقدار کو چھوڑ دیں... کیا واقعی ان کی ترقی کا راز فقط مادر پدر آزادی ہے یا پھر  کچھ اور باتیں ہیں جنھیں اپنا کر وہ اس کمال درجہ پر فائز نظر آتے ہیں   اور بجاے اپنے اصول و اقدار کو ساتھ لے کر اس  راستے کی طرف چلنے کہ ..."ہم" ہر پہلو میں مغربی طرز زندگی  اپنانے کو  ترجیح دیتے ہیں .....

جیسے لباس ،بودوباش، زندگی کے تمام ہی معاملات حتی  کے تہوار بھی بنا سوچے سمجھے وہی منائے جاتے ہیں جن کا ہماری تہذیب و  ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا
تاکہ ہم بھی ماڈرن اور ترقی یافتہ کھلا سکیں 

اسیمیلایشن کی اس دور میں اگے  رہنے کے لئےہم اپنے   سماجی اقدار سے بہت دور ہوتے جا رہیں ہیں 
   
 اس دوڑ میں سب سے اگے ہماری نوجوان نسل ہے جسےاب گویا  حلال و  حرام ، اچھائی برائی، حیا  بےحیائی،  اخلاق اور بداخلاقی میں کوئی فرق ہی  محسوس نہیں ہوتا 

بلکہ ان سب میں فرق  کرنے والوں کو وہ  تاریک  خیال کہتے ہیں اور اس سب کو ایک ہی ترازو میں تولنے کو وہ  روشن خیالی  کا نام دیتے ہیں

موجوده صورتحال یہ ہے کہ 
شراب، جوا،  نشہ ، زنا جنہیں ماضی میں گناہ قبیح جان کر حقارت کی نظر  سے دیکھا جاتا تھا ، آج یہ برائیاں  ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکیں ہیں اور اونچے طبقے کے لوگوں کی علامت مان کرجدیدیت  کی  نظر انداز کی جا رہیں ہیں

خواتین پردہ  کو اپنی  ترقی اور ازادی کی راہ میں رکاوٹ مانتی ہیں-  اور خود کی نمائیش کرنے کو ازادی سمجھتی ہیں - ماضی میں پردہ عورت کی حیا کا عنصر جانا جاتا تھا اج اس پردے کو روشن خیالی  کے نام پر گرا دیا گیا ہے اور یہ کھ کر خود کوتسلی دینے کی کوشش کی  جاتی ہے کہ حیا نظر میں  ہوتی ہے!!!!!! 

اگر ہم اپنی موجوده فیشن انڈسٹری کا جائزہ لیں تو بلا شک و     شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہاں ہم اس  

ترقی اور ازادی کی راہ میں بہت اگے جا چکے ہییں 


انٹرنیٹ پر موجود فحش ویب سائٹس، ڈیٹنگ پوائنٹس ، ڈوکومنٹریز اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال.. ہماری اخلاقی اقدار کی دھجیا اڑا رہیں ہیں

 نام نہاد روشن خیالی کی نذر ہوتی ہماری  اخلاقیات تیزی سے ہمیں زلالت کی پستی میں دھکیل رہیں ہیں،  یہی وجہ ہے کہ یہاں ائے روز ریپ جیسے شرمناک واقعات  رونما ہوتے ہیں

اس روشن خیالی کی بہت واضح مثال ہمارے معاشرے میں موجود نائٹ کلبزکی بڑھتی ہوی تعداد ہے -  جہاں جوانی کو انجواے کرنے کے  نام پر  نوجوانوں کو بھٹکنے کا  پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا  ہے

اخلاقی اقدار سے  دوری  بہت سی برائیوں کو جنم دے  رہی ہے ، جن میں سرفہرست ہم جنس  پرستی ہے
مغربی معاشرے میں یہ برائی باقاعدہ طور پر قانونی تحفظ حاصل کر چکی ہےاور حال ہی میں پاکستانی  
  یونیورسٹی کی دو طالبات نے برطانیہ میں شادی کر لی
یہ عمل ہمارے اخلاقی اقدار کا جنازه نکالنے سے کچھ کم نہ تھا!!!! 
                   
  قیامت کا منظر پیش  کرتی یہ صورتحال گم ہوتی سماجی اقدار کا منہ بولتا  ثبوت ہیں اور اس کی سب سی بڑی وجہ  اسلام سے دوری ہے- ہمیں چاہیے کے ہم اسلامی اصول اور سماجی  اقدارکی پیروی کرتے ھوے  معاشرے کو تباہی کے راستے 
 پر جانے سے روک لیں

         تحریر: عالیہ حسن 
     

Friday, September 5, 2014










 ہر انسان کا چہرہ  دوسرے سے مختلف ہوتا ہے - ہم  لوگوں کو ان کے چہروں سے پہچانتے ہیں -  خوبصورت، پرکشش ، اور حسین چہرے دل کوبھاتے ہیں - لیکن جیسے ہر تصویر کے دو رخ  اور ہر کہانی کے دو پہلو  ہوتے ہیں ، اسی طرح تقریبا ہر  چہرے کے  پیچھے بھی ایک چہرہ موجود ہوتا ہے.... حقیقی چہرہ.... جو کہ ظاہر کہ برعکس بہت گھناؤنا بھی ہو سکتا ہے اور بہت زیادہ دلکش اور حسین بھی - دھوکہ  ، فریب، خودغرضی، لالچ ، اور حسد اس چہرے کے کچھ پہلو ہیں
  ایک معروف قول ہے 

"face is the index of mind" 
اگر یہ مکمل طور پر سچ ہوتا تو لوگ کبھی بھی دھوکے اور فریب جیسے بدصورت چہروں کا شکار نہیں  ہوتے - ان بدصورت چہروں کو دکھاوے اور جھوٹی مسکراہٹ سے آرائش کر کے خوبصورت بنایا  جاتا ہے تاکہ انہیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے

آخر اس چہرے کو چھپانے کی کیا وجہ ہے ؟ کیوں اسے ایک 
ماسک کے پیچھے رکھا جاتا ہے؟

شاید اس لئے کہ لوگ خود بھی اپنے ان چہروں پر موجود دوسروں کو تکلیف اور نقصان پہنچانے کی پھٹکار کو ناپسند کرتے ہیں - اور چاھتے ہیں کے سب انھیں انکا خیرخواہ اور دوست سمجھیں ... یہ موقعہ پرست لوگ اپنے فائدے کے لئے اچھائی کا ناٹک کرتے ہیں  

شکسپیر 
 نے کہا تھا ....یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب اداکار جو  اپنا اپنا کردار نبھا رہے ہیں - لیکن یہ لوگ تو اداکاری پر  بھی حیران کن اداکاری کرتے ہیں

ایسے لوگ کسی کے بھی دوست اور خیرخواہ نہیں ، انہیں دوسروں کو تکلیف دینے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ ان کے دلوں پر برائی کی مہر لگ چکی ہوتی - کسی کی اچھائی کے بدلے اچھائی کرنا ان کے لئے ممکن نہیں  

ایسے کچھ چہروں کی مثالیں ہمیں ہماری سیاست میں دیکھنے  کو ملیں  گی .....جہاں ہر سیاست دان نے معصومیت 
  خیرخواہی اور نیک دلی کا مکھوٹا پہن رکھا ہے اور عوام  کی بہتری اور بھلائی کرنے کی اداکاری کر رہے ہیں اور عوام سب جاننے اور سمجھنے کے باوجود کبوتر کی طرح 
  آنکھیں موند کر بیٹھیں ہیں

تحریر: عالیہ حسن
  

Monday, September 1, 2014









حال ہی میں اپنی انٹرنشپ کے سلسلے میں مجھے ایک نجی   
 یونیورسٹی کے طالب علموں سے بات چیت کا موقعہ ملا - دراصل مجھے وہاں ان کی تعلیمی ضروریات ، مصروفیات ، اور درپیش مسائل کو معلوم کرنے اور ان کی راے جاننے کا کام دیا گیا تھا 

جدید دور اور نجی یونیورسٹی کا میل ایسے ہی  ہے جیسے زمین اور آسمان کے قلابے ملانا- دیدہ زیب عمارت ، ایرکنڈیشنڈ کلاس رومز ، ریستوران نما کیفے، آڈیٹوریمز ، جدید سہولیات سے آراستہ کمپیوٹر لیب اور لائبریریز اور ہر وہ  سہولت جو سرکاری اداروں میں پڑھنے والے مڈل کلاس طالب علم ٹیلی ویژن پر دیکھی جانے والی فلموں اور ڈراموں کی یونیورسٹیز  کو دیکھ کر حسرت کرتے ہیں

 میں نے  مختلف طالب علموں سے
 ان کی تعلیم اور  اس میں درپش مسائل پر رائے لی ، کسی نے  اساتذہ کی کی جانے والی سختی ،کسی نے سسٹم تو کسی نے تعلیمی پالیسیز پر رائے کا اظہار کیا - مگر ایک طالب علم سے  رائے لیتے ہوے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں کسی طالب علم نہیں بلکہ ایک عاشق کا انٹرویو لی رہی ہوں
           
جناب کا حلیہ بڑا لاجواب تھا  ...جیسے کوئی مجنون اپنی محبوبہ کی جدائی کے غم میں ہو - دبلا پتلا ، بڑھی ہویی داڑھی ، بکھرے بال  جنیہں وہ سپائکس کا نام دے رہا  تھا ، جینز جو گھٹنوں سے لے کر اخر تک پھٹی ہوی تھی ، کلائی میں چوریوں نما بینڈز اور ہاتھ میں ایک کتاب جس پر اپنا ٹچ سکرین موبائل رکھ کر وہ   کسی کو لگاتار میسج کر رہا تھا 


وہ دیکھنے میں خاصہ  پریشان اور کسی مشکل میں محسوس ہوا - میرے اصرار کرنے پر اس نے بتایا کہ اس کی گرل فرینڈ اس سے خفا ہو گئی ہے - وجہ پوچھنے پر   
موصوف نے بتایا کہ" امتحانات میں مصروفیت کی وجہ سے میں اسے زیادہ   وقت نہیں  دے پایا ، نہ ہی اس کے فیس بک سٹیٹس  کو لائک کیا ، نہ ہی کسی ہوٹل میں کھانا کھلانے  لے گیا- بس دن میں ، پانچ  چھ بار موبائل پر بات ہوتی  تھی- وہ  بہت ناراض ہے مجھ سے بات نہیں کر رہی

جبکہ اس ساری رام لیلا کو بیان کرتے ھوے اس کا سیل لگاتار وایبرٹ کر رہا تھا - میرا پوچھنا توگویا  اس کے لئے ایسے تھا جیسے کسی نے  اس کی دکھتی رگ پر  ہاتھ رکھ دیا ہو


اس نے  مجھے اپنا ہمدرد سمجھ کر اپنے عشق  کی ساری داستان  سنانا شروع کر دی....  اور جب میں نے  اس سے اس کی تعلیمی زندگی کہ  متعلق سوال کیا کہ اپ کو یہاں کے سسٹم یا تعلیمی پالیسیز سے کوئی شکایت ہو یا  پھر آپ  کوئی رائے دینا چاہیں تو اس نے کہا ....." سسٹم بہت سخت ہے لیکچر کے دوران موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے"  جس سے  ہماری نجی زندگی بہت  ڈسٹرب ہوتی ہے 

  مجھے  اندازہ ہو گیا  کہ اس کا اشارہ پہلے بیان شدہ مسلےکی طرف تھا- یہ کہہ کر وہ  دوبارہ اپنے موبائل میں مصروف ہو گیا 

 میں نے انٹرویو ختم کیا اور جدید دور کے اس عاشق کی پریشانی پر حیران رہ گئی جسے اپنی تعلیم اور  مستقبل سے زیادہ اپنی محبوبہ جسے جدید دور میں گرل فرینڈ کہتے ہیں، کی فکرکھاے جارہی تھی 

عالیہ حسن

 

  
     
       
  

Sunday, August 31, 2014








دوستی ایک میٹھا سا لفظ گویا شھد، پھول کی مہک سا تازگی اور خوشبو بکھیرتا ہوا، درخت کے  ساۓ سا ٹھنڈا اور سکون  دہ........................ایک ایسا رشتہ جسے ہم ہر رشتے میں تلاش کرتےہیں 

انسان اس دنیا میں مختلف رشتوں سے منسلک ہی پیدا ہوتا ہے ، ماں باپ ،بہن بھائی وغیرہ یہ تمام وہ  رشتے ہیں جنہیں منتخب کرنے میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے.... ہاں  البتہ ان رشتوں  کو نبھانا ہمارے بس میں ہے.... لیکن دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جسے ہم اپنی مرضی اور چاہت سے منتخب کرتے ہیں اور دوستی وہ بے غرض رشتہ ہے جس میں محبّت اور خلوص کے سوا کچھ نہیں ہوتا - ذات، عمر، سوشل سٹیٹس جیسی  چیزیں دوستی کے لئے بے معنی ہیں 
  
دوست خوشیوں کو دوگنا  اور غموں کو آدھا کر دیتے ہیں- مشہور کہاوت ہے  کہ " دوست وہ  جو مصیبت  میں کام  آیے" اچھے دوست ایک دوسرے کی پریشانی حل کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں

کچھ مطلبی لوگ اس رشتے کو کسی نہ کسی غرض سے  استعمال کرتے ہیں - آج کے دور میں لوگوں نے  اس مقدس رشتے کو کھیل بنا ڈالا ہے ..... پیسہ ، پاور ، یا کسی اور مقصد کے لئے اس رشتے کے تقدس کو تار تار کرتے ہیں- ہم موجود دور کو گلوبل ولیج کہتےہیں  .....یعنی ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک ایسی جگہ بنا دیا ہے جہاں ہرشخص ایک دوسرے سے کچھ ہی لمحات کے فاصلے پہ ہے 

فیس بک، ٹویٹر، سکایپ جیسے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے جہاں  اور بہت سی فوائد ہیں وہیں ان کا غلط استعمال بھی کیا جا رہا ہے- نوجوان نسل  آج دوستی کی اڑ میں بے راہروی کا شکار ہو رہی ہے- ان سہولیات کا غلط استعمال ہمارے معاشرے کی اخلاقیات کو تباہ کر رہا ہے- آج دوستی کے نام پر لوگ بلیک میلنگ، اغوا اور بہت سے دوسرے جرائم کی نظر ہو رہے ہیں -

اس صورت  حال کے پیشے نظر لوگوں میں  اس رشتے پر اعتبار کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے، دلوں سے  خلوص اور  ہمدردی غائب ہے، جس کی وجہ سے آج لوگ دوستی جیسے پرخلوص اور خوبصورت رشتے کو دکھاوا اور جھوٹ کہنے لگے ہیں 

یہ تو ایسا رشتہ ہے  جس کہ  بنا انسان تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے- اس رشتے کی اہمیت کو نظرانداز کرنا ناممکن ہے-   خلوص، محبّت، احساس ، نیک نیتی اور اچھا اخلاق  اس رشتے کے تقاضے ہیں جن کے بنا یہ نامکمل ہے- ہمیں چاہیے کہ دوستی کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھتے  ہوئے  اس   رشتے کو بخوبی  نبھایں

تحریر : عا لیہ حسن



Sunday, August 24, 2014



محبت کیا ہے ؟ایک احساس !!! جو ہر جاندار میں پایا جاتا ہے انسان ہو یا جانور کسی نہ کسی درجے  سب  ہی محبت کے پیرو کار ہیں 

محبت فقط چار حروف پر مشتمل  لفظ ہی نہیں ایک وسیع ترین جذبہ ہے جسے احاطہ تحریر میں لانا تقریبا' ناممکن ہے ہم آج محبت کے ایک خاص رخ پر بات کرینگے  

کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے لوگ محبت میں اندھے ہوجاتے ہیں لیلی مجنوں کو ہی دیکھ لیں دنیا والوں کی نظر میں لیلی حسین نہ سہی اسکے محب کی نظر میں اس سے بڑھ کر کوئی نہ تھااگر محبت صرف ظاہر کے چمک کی محتاج ہوتی تو کیا  آج لیلی مجنوں کی داستان  ساری دنیا کیلئے ایک مثال ہوتی ؟

ایک ماں کی محبت  ہی دیکھ لیں ماں کیلئے ایک بچہ دنیا کا حسین ترین بچہ ہوتا ہے چاہے وہ جیسا بھی ہو اسکیلئے اپنا بچہ وہ چاند ہے جو بے داغ ہے

محبت کی اس فطرت خاص کے تناظر میں جب میں آج کل محبت کو رسوا ہوتے دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں  بے شک محبت تو آج بھی اپنی تمام تر پاکیزگی کے ساتھ اسی طرح  ظاہرانہ چمک کی محتاج نہیں   محبت کبھی عزت کے شعور سے اندھی نہ تھی نہ ہے  درحقیقت محبت کو عزت کے شعور سے اندھا سمجھنے والے ہوس کے مارے  لوگ اندھے ہیں 

تحریر :عالیہ حسن